Column

بیانیے کی جنگ

بیانیے کی جنگ
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
ملک میں ایک بار پھر بیانیے کا ہنگامہ برپا ہے۔ سیاسی فضا مسلسل گدلی ہوتی جا رہی ہے اور اس دھند میں سب سے تازہ اور گونج دار آواز ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس تھی، جس نے نہ صرف سیاسی منظرنامے میں لرزش پیدا کی بلکہ کچھ دیر کے لیے عوامی گفتگو کا رخ بھی بدل کر رکھ دیا۔
بیانیوں کے ہجوم میں یہ آواز اس لیے نمایاں تھی کہ اس نے ایک حساس لکیر کھینچ دی، ریاستی اداروں کے وقار اور سیاسی کشمکش کی سرحد۔
ریاست کی وارننگ اور بیانیے کی طاقت
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے خطاب میں ایک ’’ قیدی سیاسی رہنما‘‘ کے بیانیے کو نہ صرف گمراہ کن قرار دیا بلکہ اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ تک کہہ ڈالا۔ یہ جملہ معمولی نہیں تھا۔ ریاستی اداروں کے ترجمان کا اس سطح پر کسی سیاسی بیانیے کو ’’ خطرہ‘‘ کہنا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ معاملہ اب محض اختلافِ رائے نہیں رہا، بلکہ وہ نقطہ آ پہنچا ہے جہاں سیاست اور ریاست کی لکیر باریک سے باریک تر ہو گئی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ سیاسی بیانیہ فوجی اداروں کے دائرے سے ٹکرایا ہو، مگر حالیہ برسوں میں بکھرا ہوا سیاسی منظر نامہ، معاشی بے یقینی، اور عوامی ذہن میں بڑھتی ہوئی محرومیاں ایسے خلا پیدا کر چکے ہیں جنہیں کسی بھی پُرکشش مگر غیر ذمہ دارانہ بیان سے بھرا جا سکتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات ایک وارننگ کی صورت سامنے آئی، حرکتیں سیاسی ہوں تو بات سیاسی رہتی ہے، مگر جب بیانیہ ریاست کی وحدت کو چیلنج کرے تو پھر یہ سیاست نہیں رہتی۔
پریس کانفرنس میں بار بار یہ نکتہ دہرایا گیا کہ ریاست اور عوام کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوششیں خطرناک ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں ’’ خلا‘‘ کبھی بھی پُر نہیں رہتا۔ جہاں اداروں پر عدم اعتماد کی لکیر کھینچی جاتی ہے، وہاں غیر مرئی قوتیں بیانیہ سازی میں اپنا حصہ ڈالنے لگتی ہیں۔
ریاست ہمیشہ دیوار کی طرح ہوتی ہے، خاموش، گہری، اور پُرسکون۔ اور سیاست ہمیشہ آواز کی طرح بلند، بے تاب اور بے قرار۔ لیکن کبھی کبھی ایسا وقت آتا ہے جب خاموش دیوار بھی بول اٹھتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی تازہ پریس کانفرنس اسی بولتی ہوئی دیوار کی علامت لگتی ہے، ایک ایسی دیوار جس نے پوری شدت سے اعلان کیا کہ ’’ قومی سلامتی کوئی کھلونا نہیں، اور ریاست کے بیانیے سے کھیلنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں‘‘۔
یہ زبان سفارتی بھی تھی، سخت بھی، وضاحت بھی تھی، وارننگ بھی اور شاید سب سے بڑھ کر یہ ایک ایسے زخم کا اعتراف بھی تھی جسے برسوں سے بیانیے کی دھول ہر سمت اڑا رہی تھی۔
یہ جملہ کہ ’ یہ بیانیہ اب محض اختلاف نہیں، ریاست کے خلاف خطرہ بن چکا ہے‘، دراصل بیانیے کی طاقت کا اعتراف ہے ۔ یہ اعتراف کہ اس ملک میں بیانیہ بندوق سے نہیں، ذہن سے جیتا جاتا ہے، اور ذہن جب بکھر جائیں تو ریاستیں اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔
یہاں ایک سوال بہت اہم ہے: کیا ریاستی اداروں کا جارحانہ دفاع سیاسی بیانیوں کی گونج کو دھیما کرتا ہے، یا مزید اونچی آوازوں کو جنم دیتا ہے؟ تاریخ کہتی ہے کہ پابندی اکثر بیانیے کو زیرِ زمین لے جاتی ہے، اور زیرِ زمین چلنے والے بیانیے کبھی کبھی زمین کے اوپر آنے والوں سے زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں۔
اس پریس کانفرنس نے ایک اور بحث کو بھی تازہ کیا ہے، ریاست کی سالمیت کے نام پر بیانیے کی حد کہاں ختم ہوتی ہے اور تنقید کی آزادی کہاں شروع؟
سیاسی رہنمائوں کی اپنی مجبوری ہے کہ وہ اپنی حمایت قائم رکھنے کے لیے بیانیے کو جذباتی رکھیں۔ مگر اداروں کی مجبوری اس سے بھی بڑی ہے، انہیں ریاستی ڈھانچے کو کسی بھی مصنوعی دراڑ سے بچانا ہوتا ہے، کیونکہ اس دراڑ سے نکلنے والی لکیریں عوامی اعتماد کو کھا جاتی ہیں۔
پریس کانفرنس کے بعد سیاسی ردعمل بجلی کی رفتار سے آیا۔ حکومت نے اسے ’’ ضروری دفاع‘‘ کہا، مخالفین نے اسے ’’ سیاسی مداخلت‘‘ قرار دیا، اور عوام، وہ ہمیشہ کی طرح بیچ میں کھڑے یہ سوچتے رہ گئے کہ سچ آخر کون بول رہا ہے؟۔یہ سچ اس ملک میں کبھی ایک آواز میں نہیں بولا جاتا۔ یہ ہمیشہ دو انتہائوں کے درمیان قید رہتا ہے، ایک انتہا وہ جو طاقت کے ایوانوں میں لکھی جاتی ہے، اور دوسری وہ جو عوام کے زخموں میں چھپی ہوتی ہے۔
پریس کانفرنس کے بعد ایک عجیب سا سکوت بھی محسوس ہوا، جیسے کوئی حدِ فاصل دوبارہ کھینچ دی گئی ہو۔ مگر یہ سکوت دیرپا نہیں ہوگا۔ کیونکہ سیاست اپنی سانس اسی وقت لیتی ہے جب وہ نعرہ لگاتی ہے، سوال اٹھاتی ہے، اور بیانیہ تراشتی ہے۔ ریاست دوسری طرف اپنی سانس تب لیتی ہے جب امن رہتا ہے، وحدت برقرار رہتی ہے اور اداروں پر اجتماعی اعتماد قائم رہتا ہے۔
یہی وہ ’’ دو متوازی سانسیں‘‘ ہیں جن کے درمیان پاکستان ہمیشہ سے چلتا آیا ہے۔
آخر میں صرف ایک سوال باقی رہ جاتا ہے: کیا یہ پریس کانفرنس خاموشی کو جنم دے گی، یا ایک اور شور کی طرف دروازہ کھول دے گی؟
ہر ریاست کا سب سے بڑا امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ اختلاف کو دشمنی، اور تنقید کو بغاوت کے مترادف نہ سمجھے۔ اور ہر سیاست دان کا سب سے بڑا امتحان یہ کہ وہ عوام کی محبت جیتنے کے لیے ریاست کی دیوار پر چوٹ نہ لگائے، کیونکہ اس چوٹ کی گونج کبھی صرف اداروں میں نہیں، مستقبل کی نسلوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔
یہ فیصلہ آنے والے دنوں کے بیانیے کریں گے اور پاکستان میں بیانیہ کبھی خاموش نہیں رہتا۔

جواب دیں

Back to top button