کرپشن کا عالمی دن

کرپشن کا عالمی دن
ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ روز 9دسمبر کو کرپشن کا عالمی دن منایا گیا، کیونکہ کرپشن پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ لیکن کچھ ممالک کرپشن میں اس حد تک آگے نکل چکے ہیں جو کہ عالمی سطح پر ان کیلئے بدنامی کا باعث بن چکی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے IMFنے پاکستان میں کرپشن اور گورننس پر فروری 2025ء میں تیار کی گئی ایک تہلکہ خیز ’’ گورنس اینڈ کرپشن ڈائیگنوسٹک اسسمنٹ‘‘(GCDA)رپورٹ گزشتہ دنوں جاری کی جسے حکومت پاکستان نے اگست تک روک رکھا تھا لیکن جب IMFنے مذکورہ رپورٹ کی اشاعت اور اس پر قانون سازی آئندہ ماہ دسمبر میں ہونے والے اپنے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں1.2ارب ڈالر کی تیسری قسط کی منظوری سے مشروط کی تو حکومت کو رپورٹ شائع کرنا پڑی۔ یہ رپورٹ پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے سربراہان، اراکین پارلیمنٹ، اعلیٰ حکومتی شخصیات، گورنر اسٹیٹ بینک، چیئر مین FBRاور چیف جسٹس آف پاکستان سی ملاقاتوں کے بعد پاکستان میں شفافیت اور احتساب کے پہلوں پر معلومات حاصل کر کے تیار کی گئی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں پھیلی بدترین کرپشن جس کا حجم 6ہزار ارب روپے سالانہ سے بڑھ چکا ہے، کو روکنے کے لئے IMFنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ IMF کی 92اصلاحات پر فوراً عمل درآمد کرے۔ IMFکے مطابق پاکستان میں کمزور حکمرانی، بیڈ گورنس اور کرپشن نے ملک کی معاشی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے، اگر پاکستان آئندہ 3سے 6ماہ میں IMFکا گورنس اصلاحات پیکیج نافذ کرے تو 5سال میں ملکی معاشی ترقی میں 5سے 6.5فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں ریاستی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا کہ گزشتہ 2سے 3سال کے دوران پاکستان میں کرپشن پر کنٹرول انتہائی کمزور ہوا ہے، ملک میں بجٹ سازی اور مالیاتی معلومات کی رپورٹنگ، ترقیاتی اخراجات، حکومتی اور پارلیمانی نظام میں وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کے غیر ضروری اخراجات، سرکاری پروکیورمنٹ، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں (SOEs)اور ڈسکوز میں موجودہ خامیوں کی وجہ سے پاکستان کرپشن کے شدید اثرات سے دوچار ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری کرپشن کا خاتمہ ہے۔ کیونکہ کرپشن بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ افسوس اتنے سال گزرنے کے باوجود کرپشن کے خاتمے کیلئے سوائے قانون سازی کے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو وبائی امراض کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ کرپشن یا بدعنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں۔ اپنے عہد اور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں۔ ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کیلئے کسی مقدس نام کو استعمال کرنا بھی بدعنوانی ہے۔ کسی برائی کے خلاف جدوجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں۔ بدعنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ کوئی نگران اگر خود بددیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہوجاتا ہے۔ ریاست، عوام، معاشرہ، آئین اور قدریں الگ الگ چیزیں ہیں۔ ان سب چیزوں کے اشتراک سے انسانی تہذیب اور انسانی تاریخ جنم لیتی ہے۔ ریاست کو ہم ملک یا مملکت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ سیکڑوں برس قبل ایک تاریخ دان اور محقق نے ایک کتاب تحریر کی تھی جسے ’’ ابن خلدون کا مقدمہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب ساری دنیا میں ایسے تمام اصولوں کی مستند ترین دستاویز سمجھی جاتی ہے جو ریاست عوام اور معاشرے کے باہمی تعلق کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اور ان ہی عوام کی کوکھ سے متعلقہ مملکت کے آئین اور اس کی اقدار کا جنم ہوتا ہے۔ ابن خلدون کا مقدمہ پڑھے بغیر ہم اس نظام کی تباہ کاریوں کے اسباب نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی دور کر سکتے ہیں جسے ہم نے اختیار کر رکھا ہے اور جسے ’’ بدل ڈالنے‘‘ کے عزم صمیم کا اظہار ہمارے ملک کے تقریبا تمام لیڈر اور حکمران کرتے رہتے ہیں۔ابن خلدون نے بنیادی بات جو اپنے ’’ مقدمہ‘‘ میں لکھی تھی وہ یہ تھی کہ اس مملکت اور معاشرے کو تباہی اور بربادی سے بچایا ہی نہیں جاسکتا جس میں قانون سازی اور حکومت کرنے کا اختیار اس کے تاجروں اور بیوپاریوں کے پاس چلا جائے۔ ایسی مملکت کے حکمرانوں کا ہر فیصلہ ان کے کاروبار کو فروغ دینے اور ان کے مالی مفادات کے تحفظ کیلئے ہوگا۔ وہ چیز جسے ہم کرپشن کہتے ہیں اس تاریخی سچ کا دوسرا نام ہے جس پر ابن خلدون نے اپنے’’ مقدمہ‘‘ میں روشنی ڈالی تھی۔ وطن عزیز کا ’’ نظام حکمرانی‘‘ سر سے پائوں تک اسی ’’ تاریخی سچ‘‘ کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ ہمارے حکمران طبقے کی بڑھتی ہوئی دولت اور بے بس عوام کے بڑھتے ہوئے افلاس سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارا پاکستان امیر سے امیر تر ہوتے چلے جانے والے حکمرانوں کا ایک ایسا غریب ملک ہے جس کے عوام پر عرصہ حیات روز بروز تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک سروے رپورٹس کے مطابق ملک میں اس وقت سالانہ پانچ ہزار ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے جس میں بلوچستان 65فیصد، سندھ 45فیصد، پنجاب 32فیصد اور خیبر پختونخوا 21فیصد ہے۔ اس وقت ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے جو ادارے کام کر رہے ہیں ان میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (FIA)، وفاقی احتساب ادارہ، نیب اور احتساب ادارہ اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں، یہ سب اتنا آسان ہوتا، تو بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔
ایک مرتبہ سرکار دو عالمؐ کی خدمت میں صحابی سعد بن وقاصؓ نے عرض کیا کہ میرے لئے مستجاب الدعوات ہونے کی دعا فرما دیجئے، آپؐ نے فرمایا: اے سعد! اپنا کھانا حلال اور پاک کرلو، تم مستجاب الدعوات بن جائو گے، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہوا ہو وہ گوشت تو جہنم کے ہی لائق ہے۔
بدعنوانیوں کی موجودہ دلدل سے نکلنے کے لئے اسلام جیسے مکمل اور فطری مذہب کی جامع اور حقیقی تعلیمات ہی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سخت اور مربوط اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سیاسی سطح پر سیاستدانوں کو نہ صرف ایسی قانون سازی کرنی ہوگی، کہ ہر سطح پر کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ موجودہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔





