دل خوش کر دیا شہزادے
صفدر علی حیدری
’’ قوم میرے لیے دعا کریں تاکہ میں مزید بہتر پر فارم کروں اور پاکستان کے لیے میڈل جیتوں‘‘ ۔
یہ الفاظ تھے ستائیس سالہ ارشد ندیم کے جنہوں نے قوم سے دعا کی اپیل کی اور خوشیوں کو ترسے ہوئے عوام نے اپنے ہیرو کے ان الفاظ کو ٹاپ ٹرینڈ بنا ڈالا۔ اس کے لیے دل سے ایسے دعا کی کہ اپنی زندگی کی بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے قوم کے عظیم بیٹے نے ایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔
یوں اولمپکس میں پاکستان کا 32سالہ انتظار ختم ہوا اور ارشد ندیم نے نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے طلائی تمغہ جیت لیا ۔ارشد اولمپکس کی تاریخ میں انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے ہیں ۔
پاکستان کے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلوں میں نیا اولمپک ریکارڈ قائم کرتے ہوئے نہ صرف طلائی تمغہ حاصل کر لیا ہے بلکہ پاکستانی قوم کا ان عالمی کھیلوں میں میڈل کے حصول کا تین دہائیوں سے جاری انتظار بھی بالاخر ختم ہو گیا ہے۔
ارشد نے یہ کارنامہ 92.97میٹر فاصلے پر نیزہ پھینک کر سرانجام دیا، جو ان کے کیریئر کی بہترین کارکردگی بھی ہے۔جمعرات کی شب سٹیڈ ڈی فرانس میں ہونے والے فائنل مقابلے میں ارشد کی پہلی تھرو فائول قرار دی گئی تاہم دوسری تھرو نے اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔
ارشد نے اپنی آخری تھرو بھی 90میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ ارشد نے اپنے کیریئر میں 90میٹر سے زیادہ فاصلے پر تھرو کی ہے۔ ماضی میں انہوں نے 2022ء میں برمنگھم میں دولتِ مشترکہ کھیلوں میں 90.18میٹر فاصلے پر جیولن پھینک کر طلائی تمغہ جیتا تھا ۔
جیولن کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ ارشد کے دیرینہ حریف اور دفاعی چیمپئن انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا جنہوں نے 89.45میٹر کی تھرو کی ۔ یہ رواں برس ان کی بہترین تھرو تھی۔ کانسی کے تمغے کے حقدار گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز قرار پائے۔ پیرس اولمپکس میں کوالی فائنگ رائونڈ میں انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا اپنی 89.34میٹر کی تھرو کی بدولت پہلے نمبر پر رہے تھے جبکہ ارشد ندیم 86.59میٹر کی تھرو کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر تھے۔
وہ اولمپکس کی تاریخ میں انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے جبکہ کوئی بھی میڈل جیتنے والے تیسرے پاکستانی ہیں۔ ان سے قبل 1960ء میں پہلوان محمد بشیر نے روم اور 1988ء میں باکسر حسین شاہ نے سیول اولمپکس میں کانسی کے تمغے جیتے تھے۔
ارشد کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان اولمپکس میں 1992ء کے بعد پہلی مرتبہ کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے جبکہ طلائی تمغے کے لیے پاکستان کا انتظار اس سے بھی کہیں طویل تھا کیونکہ پاکستان نے اولمپکس میں اپنا آخری طلائی تمغہ 1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کے مقابلوں میں جیتا تھا۔ ارشد کی اس کامیابی کے بعد اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان کے کل تمغوں کی تعداد 11ہو گئی ہے، جن میں سونے اور کانسی کے چار ، چار جبکہ چاندی کے تین تمغے شامل ہیں۔ ان 11میں سے آٹھ تمغے ہاکی جبکہ باقی تین جیولن تھرو، ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے گئے ہیں۔
ارشد ندیم نے جیولن مقابلوں میں سنہ 2008میں قائم کیا گیا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل میں جیسے ہی نیا اولمپک ریکارڈ اپنے نام کیا تو گویا پاکستانیوں کو یقین سا ہو گیا کہ ان کا تین دہائیوں کا انتظار اب ختم ہونے کو ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ارشد ندیم کا نام ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور انھیں جہاں مبارک باد دینے کا سلسلہ شروع ہوا وہیں صارفین کی بڑی تعداد بار بار ان کے اس تھرو کی ویڈیو شیئر کرنے لگی جس میں وہ 92.97میٹر کے ساتھ نیا عالمی ریکارڈ بناتے ہیں۔
پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر نے لکھا کہ ’’ ارشد نے سر دھڑ کی بازی لگائی ہے اور ان کی تھرو طلائی تمغے کے لیے کافی ہے‘‘۔ کرکٹ مبصر اور ٹی وی میزبان زینب عباس کا کہنا تھا کہ ’’ کیا ہی تھرو ہے یہ ‘‘۔پاکستان کے فاسٹ بائولر شعیب اختر نے اپنے مخصوص انداز میں ارشد ندیم کی ریکارڈ تھرو پر انہیں ’’ شہزادہ‘‘ قرار دے دیا، جبکہ پروفیسر عادل نجم نے لکھا کہ ’’ دل خوش کر دیا شہزادے ‘‘۔ایسے میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے ایکس ہینڈل سے ایک ٹویٹ سامنے آیا جس میں موجود ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کرکٹر پیرس اولمپک میں بے تابی سے ارشد ندیم کی تھرو کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ جیسے ہی ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہیں تو سب کھلاڑی جشن منانا شروع کر دیتے ہیں۔
ارشد نے اولمپکس فائنل میں اپنی آخری تھرو بھی 90میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی۔ فاتح اور قوم کے ہیرو کا کہنا ہے ’’ جیولن ہاتھ میں لیتا ہوں تو ساری ٹینشن غائب ہو جاتی ہے ‘‘۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر نسیم شاہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر کہتے نظر آئے کہ ارشد ندیم لاکھوں لوگوں کے لیے متاثر کن شخصیت ہیں اور پورا پاکستان فخر سے ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
ایک صارف نے بڑی عجیب بات لکھی ’’ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ بجلی کے بلوں میں 100روپے کا ایک اور ٹیکس شامل کریں جو ارشد ندیم کو بطور انعام دیا جائے۔ وہ ہمارے پیسے کے حقدار ہیں ‘‘۔
صحافی سلیم خالق کہتے ہیں کہ لوگوں کو ارشد ندیم صرف عالمی ایونٹس کے دوران ہی یاد آتے ہیں۔
میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم کون ہیں ؟
ارشد ندیم کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے میاں چنوں کے نواحی گائوں چک نمبر 101۔15ایل سے ہے ۔ان کے والد راج مستری ہیں لیکن اُنہوں نے اپنے بیٹے کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی ۔ ارشد ندیم کے کیریئر میں دو کوچز رشید احمد ساقی اور فیاض حسین بخاری کا اہم کردار رہا ہے۔
رشید احمد ساقی ڈسٹرکٹ خانیوال ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے علاوہ خود ایتھلیٹ رہے ہیں ۔ وہ اپنے علاقے میں باصلاحیت ایتھلیٹس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے ہیں ۔2021ء میں رشید احمد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد ندیم جب چھٹی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ، اُنہیں وہ اس وقت سے جانتے ہیں، ’’ اس بچے کو شروع سے ہی کھیلوں کا شوق تھا ۔ اس زمانے میں ان کی توجہ کرکٹ پر زیادہ ہوا کرتی تھی اور وہ کرکٹر بننے کے لیے بہت سنجیدہ بھی تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایتھلیٹکس میں بھی دلچسپی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے سکول کے بہترین ایتھلیٹ تھے‘‘۔ رشید احمد ساقی کہتے ہیں ’’ میرے ارشد ندیم کی فیملی سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے والد میرے پاس آئے اور کہا کہ ارشد ندیم اب آپ کے حوالے ہے، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ میں نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری سنبھالی اور پنجاب کے مختلف ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجتا رہا۔ ارشد نے پنجاب یوتھ فیسٹیول اور دیگر صوبائی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں ۔ یوں تو ارشد ندیم شاٹ پٹ، ڈسکس تھرو اور دوسرے ایونٹس میں بھی حصہ لیتے تھے لیکن میں نے ان کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا ‘‘۔
ارشد ندیم شادی شدہ ہیں، ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔
رشید احمد ساقی نے بتایا تھا کہ ’’ میں ارشد ندیم کو مذاقاً کہتا تھا کہ اولمپکس میں شرکت کا خواب پورا ہو جائے تو پھر شادی کرنا، لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ گائوں میں شادیاں کم عمری اور جلدی ہو جایا کرتی ہیں‘‘۔
ارشد ندیم کا سفر میاں چنوں کے گھاس والے میدان سے شروع ہوا جو اُنہیں انٹرنیشنل مقابلوں میں لے گیا۔
ارشد ندیم کے کوچ فیاض حسین بخاری ہیں جن کا تعلق پاکستان واپڈا سے ہے۔ وہ خود بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں ۔ ان کے بقول ارشد ندیم ایک سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ چھ ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ کام ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔ دو سال قبل ہونے والی سائوتھ ایشین گیمز سے قبل اُن دونوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اولمپکس میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے نہیں جانا بلکہ کارکردگی کے ذریعے کوالیفائی کر لیا۔
ارشد ندیم کی کارکردگی پر ان کو خراج تحسین دینا تو بنتا ہے کہ وہ قوم کا قابل فخر ہیرو ہے۔ اب حکومت پاکستان کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ اس کے لیے بہت بڑے انعام کا اعلان کرے۔
افسوس کا مقام ہے کہ کرکٹ کا کھیل سب کھیلوں کو نگل گیا۔ ہاکی کا زوال تو نوے کی دہائی سے شروع ہو چکا ہے۔ اب ہاکی بدمعاشوں کے ہاتھ میں نظر آتی ہے جو پہلے ہاتھ پر مارتے ہیں پھر اپنے حریف میں۔
کتنا سنہری دور تھا جب ہم چار کھیلوں میں ( کرکٹ ، ہاکی، سکوائش اور سنوکر ) عالمی چیمپئن تھے۔ سنتے ہیں سن ساٹھ میں ہم فٹ بال میں اچھے ہوا کرتے تھے۔ والی بال میں ہم ایشیا کی سطح پر اب بھی ایک اچھی ٹیم ہیں۔ بدقسمتی سے ہم سنوکر اور سکوائش میں اپنا مقام اور معیار برقرار نہیں رکھ پائے۔ ریسلنگ میں بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ باکسنگ کا بھی اللہ حافظ ہے۔ کبڈی میں ہم اہم مقام پر ہیں ۔ جب ہماری ٹیم نے روایتی حریف بھارت کو ہرایا تو حق بنتا تھا ان کھلاڑیوں میں سونے میں تول دیا جاتا مگر۔۔ ملک میں ناکافی سہولیات ، فنڈز کی کمی اور کھلاڑی کو ناکافی معاوضہ دے کر ہم نے خود کو برباد کر ڈالا ہے۔ ارشد ندیم جیسا کوئی کھلاڑی اپنی محنت سے کوئی مقام پاتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ انفرادی کھیلوں میں کوئی کھلاڑی ذاتی محنت سے کوئی مقام حاصل کرتا ہے تو اس کی سرپرستی نہیں کی جاتی۔ قومیں کھیلوں سے دنیا میں اپنا مقام بناتی ہیں۔ کھلاڑیوں کو قومی ہیرو کا درجہ ملتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں سوائے کرکٹ کے کسی اور کھیل کو نہ سرکاری سرپرستی ملتی ہے نہ سپانسرز ان کو لفٹ کراتے ہیں۔
ارشد ندیم کی بے مثال کے کامیابی نے جہان ہمیں خوش ہونے کا موقع فراہم کیا ہے وہیں یہ احساس بھی اجاگر کیا ہے کہ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں پر توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اقوام عالم میں قابل فخر حاصل کر سکتے ہیں ۔ 92کا ورلڈ کپ اور 92کی تھرو، تاریخ یاد رکھے گی اور قوم کبھی نہیں بھولے گی۔