ضرورت، ایک دروازہ کھلنا رکھنا

ضرورت، ایک دروازہ کھلنا رکھنا
سیدہ عنبرین
موسم سرما کے ساتھ ساتھ موسم احتجاج بھی جاری ہے، کہیں ملک بھر کے ٹرانسپورٹر نالاں ہیں تو کہیں ٹریفک چالانوں کے زخمی کراہ رہے ہیں۔ سرکار کا بھلا ہو وہ زخموں پر نمک چھڑکنے کی بجائے سرد راتوں میں واٹر کینن سے دھرنا دینے والوں پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اپنا دل ٹھنڈا کر رہی ہے۔ صرف اس شغل سے انکا دل ٹھنڈا نہ ہو گا، اس کے لیے 28ویں ترمیم کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ یہ بھی کر کے دیکھ لیں، پھر اس کے بعد کیا ؟۔
آئینی ترامیم کے ذریعے پسند کے فیصلوں میں آسانی ہوجاتی ہے، حکومت پر بظاہر گرفت مضبوط ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ اختیار مل جاتا ہے کہ کس کو سانس لینے کا پرمٹ دینا ہے، کس کا منسوخ کرنا ہے۔ پورا آئین بدل ڈالیں، اسے اٹھا کر طاق میں رکھ دیں، اس سے معیشت بہتر نہیں ہو سکتی، اس شعبے میں کسی قسم کی ترقی نہیں ہو سکی، نوشتہ دیو ار تو یہی ہی، کوئی پڑھنے کی ضرورت تو محسوس کرے۔
معیشت کی بہتری کیلئے آئیے دیکھیں ہمسائے کیا کر رہے ہیں ، امریکہ کی طرف سے بھارت اور روس پر پابندیوں کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان پینسٹھ ارب ڈالر کا صرف تیل خریدا اور بیچا جا رہا ہے، تیل معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہی، مشین کا پہیہ رواں رکھنے میں اس کا کردار اہم ہے، بھارت اپنی ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد خام تیل صاف کر کے برآمد کرتا ہے اور کثیر زرمبادلہ کماتا ہے، اس کی انڈسٹری کے علاوہ کاٹیج انڈسٹری اپنی پوری قوت کے ساتھ چل رہی ہے۔ چین کے بعد بھارت وہ ملک ہے جو کنزیومر پراڈکٹس اعلیٰ کوالٹی اور کم قیمت پر تیار کر کے دنیا کے بیشتر ملکوں کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ مڈل ایسٹ کی سات ریاستوں کی کسی مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو یہاں بھارتی مصنوعات کی بھرمار ملے گی، اس حوالے سے چین پہلے نمبر پر، بھارت دوسرے نمبر پر جبکہ بنگلہ دیش اور ایران بعد کے شمار میں ہیں، ایرانی مال کب، کہاں، کیسے پہنچتا ہے، یقیناً اسی طرح جس طرح وہ کوئٹہ کے بعد اب کراچی کے بعد لاہور تک آ پہنچا ہے، اس کی قیمت پاکستانی مصنوعات سے پچاس فیصد کم اور کوالٹی سو فیصد بہتر ہے۔ پاکستانیوں کو قریباً دس برس قبل خوشخبری سنائی گئی تھی کہ ایک دوست عرب ملک پاکستان میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، بلوچستان میں ایک آئل ریفائنری لگائی جائے گی، جس کا فائدہ پاکستان، پھر صوبہ بلوچستان اور گوادر کی بندرگاہ کو ہوگا۔
اس منصوبے کے اعلان، ایم او یو سائن ہونے کے بعد آج تک اس کی کوئی خبر نہیں، اطلاعات یہی ہیں کہ ہمارے سر دے سائیں نے اس منصوبے پر ناراضی کا اظہار کیا اور شرط عائد کر دی کہ برکت کیلئے اس منصوبے میں اس کا پائوں بھی رکھا جائے، ہم چونکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہیں، تمام فیصلے آزادانہ اور منصفانہ کرتے ہیں، لہٰذا ہم نے جب سے اب تک اس منصوبے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، ہم انہیں خاموشی کی مار مار رہے ہیں، ہمیں امید ہے ہماری خاموشی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوگی۔
روسی صدر کے دورہ بھارت کے حوالے سے ہمیں یہ کہہ، سن کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ یہ دورہ بری طرح ناکام ہوا ہے، لیکن ہم میں ابھی اتنی جرات نہیں کہ روسی صدر کو پاکستان آنے کی دعوت دیں یا خود روس کے دورے پر جا کر نسبتاً سستا تیل خریدنے کا معاہدہ کریں، روسی صدر کو پاکستان آنے کی دعوت کے نام پر ایک مخول ضرور کیا گیا، اس کا مقصد امریکہ کے بڑھتے ہوئے دبائو کا مقابلہ کرنا اور اس کی مزید فرمائشوں سے محفوظ رہنا ہے، لیکن یاد رکھنا چاہیے برابر کی دوستی، برابر کی شادی میں جو سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، وہ بے جوڑ شادی یا گھر سے بھاگ کر بھگا کر کی جانے والی شادی میں حاصل نہیں ہوتیں، ایسی شادیاں جلد ختم ہوجاتی ہیں۔ عشق بھی اب ایک سیزن کی طرح رہ گیا ہے، سیزن ختم عشق ختم۔ سیاسی عشق کی مدت تو اب ہمارے یہاں پائے جانے والے موسم گرما کے آٹھ ماہ کے سیزن سے بھی کم ہو گئی ہے۔ بھارت اور ایران سے ہماری تجارت عرصہ دراز سے بند ہے، چند ماہ قبل ہم نے ملک کے وسیع تر مفاد میں افغانستان سے بھی تجارت بند کر دی ہے۔ ہمارا خیال اور پروگرام تھا کہ ہم افغانستان کو بھوکا مار دیں گے لیکن ہم یہ بھولے رہے، ہم نے افغانوں کو پیدا نہیں کیا انہیں بھی اسی خدا نے پیدا کیا ہے جو ہمارا پیدا کرنے والا اور ہمیں رزق دینے والا ہے، ہم تو آ ج کل اس رزق پر گزر بسر کر کے خوش ہو رہے ہیں جس سے پرواز میں کوتاہی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان فضائیہ نے کامیابی کی ایک تاریخ رقم کر دی ہے، جس کے سبب پاک فضائیہ اور پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ ہوا ہے ، تاہم اس کامیابی سے یہ سبق حاصل کیا ہے کہ اب فضائیہ ہی پرواز کرے گی اور کوتاہی نہیں کرے گی۔ ہم خود جتنی مرضی کوتاہی کر لیں ہمیں جیسا تیسا رزق ملتا رہے گا، گزشتہ کئی برس سے چین سے سالانہ چار ارب، سعودی عرب سے سالانہ چار ارب اور خلیج و دیگر ممالک سے قریباً تین ارب ڈالر کا رول اوور حاصل کرکے ہم مطمئن ہیں، ہم اسے پرواز میں کوتاہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم، ہمارا ملک اور ہماری معیشت دن دگنی اور رات جوگنی ترقی کر رہے ہیں۔
افغانستان اپنی خوراک کے معاملے میں کبھی ہم پر انحصار کرتا تھا، انہوں نے یہ انحصار ختم کرنے کے لیے کمال منصوبہ بندی کی ہے۔ افغانستان کے ایک سرے سے دوسری سرے تک تیار ہونے والی نہر اگلے برس فعال ہو کر پورے افغانستان کو سیراب کرے گی اور غذائی خودکفالت کی منزل حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ افغانستان تیل کے معاملے میں بھی خاصی حد تک پاکستان پر انحصار کرتا تھا، اب روس سے براہ راست تیل حاصل کر رہا ہے، انگریز دور میں وہاں ریل کی پٹری بچھائی گئی تھی، روس نے افغانستان میں آنے کے بعد اسے مزید بہتر کیا، جبکہ امریکیوں نے بھی اپنی ضرورت کیلئے اسے اپ گریڈ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، آج افغانستان براستہ ازبکستان، ترکمانستان ریلوے ٹینکرز کے ذریعے ہر ہفتے پانچ کروڑ لٹر تیل منگوا رہا ہے، یوں اس اعتبار سے وہ خود کفیل ہو چکا ہے۔ روس سے تیل کی امپورٹ میں اب کوئی بندرگاہ حائل ہے نہ کوئی روز روز کھلتا بند ہوتا بارڈر۔ افغان قیادت اور روسی قیادت کل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنائے گئے، اس میں امریکہ کا فائدہ تھا، آج دونوں ملکوں کی لیڈر شپ کو اس کا ادراک ہوا تو دونوں ایک دوسرے کی معاونت کیلئے اکٹھے بیٹھے ہیں، جبکہ ہمارے دونوں ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں، ہم افغانستان کے ساتھ بارڈر بند کرکے بہت مطمئن ہیں، باڈر بند ہونے سے ہمارا متعدد وسطیٰ ایشیائی ریاستوں سے رابطہ اور تجارت متاثر ہوئی ہے، ضرورت ہے ایک دروازہ کھلا رکھنے کی، میدان سیاست کی بھی یہی ضرورت ہے۔





