Column

پاکستان، انڈونیشیا تعلقات کا نیا سفارتی دور

پاکستان، انڈونیشیا تعلقات کا نیا سفارتی دور
پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان مختلف شعبوں میں ہونے والے معاہدے نہ صرف دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہیں بلکہ خطے میں معاشی، سفارتی اور اسٹرٹیجک تعاون کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ وزیرِاعظم ہائوس میں منعقدہ اس تقریب میں جن معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں ( ایم او یوز) پر دستخط ہوئے، وہ صرف رسمی کارروائی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے مستقبل کے تعاون کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ اس تقریب میں انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک قیادت کی سطح پر تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ حلال تجارت، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، اعلیٰ تعلیم، انسدادِ منشیات اور صحت جیسے شعبے کسی بھی ملک کی ترقی کے بنیادی ستون ہوتے ہیں اور ان شعبوں میں دو طرفہ تعاون بڑھانا پاکستان اور انڈونیشیا دونوں کے لیے طویل المیعاد فوائد کا حامل ہوگا۔ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدہ (PTA)تقریباً 4ارب ڈالر کی مالیت رکھتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حجم میں اضافے کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ تقریب میں اس معاہدے پر نظرثانی اور نئے مواقع کی تلاش پر اتفاق دراصل اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ دونوں ممالک تجارت کو صرف موجودہ سطح تک محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ اسے مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔ تجارتی عدم توازن دور کرنے پر اتفاق انتہائی خوش آئند ہے۔ کئی برسوں سے پاکستان اور انڈونیشیا کی تجارت میں عدم توازن پایا جاتا تھا، جس سے پاکستان کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ اب جب کہ دونوں ممالک نے اس عنصر کو کم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، یہ نہ صرف پاکستان کی برآمدات کے لیے نئے دروازے کھولے گا بلکہ مقامی صنعتوں کو بھی سہارا دے گا۔ اس کے ساتھ ایس آئی ایف سی (Special Investment Facilitation Council) اور انڈونیشیا کے خودمختار دولت فنڈ کے درمیان تعاون مستقبل میں مشترکہ سرمایہ کاری اور بڑے صنعتی منصوبوں کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ تعاون صرف سرمایہ کاری تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ٹیکنالوجی، انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے شعبوں میں بھی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں مفاہمت کی یادداشت طلبہ، محققین اور تعلیمی اداروں کے درمیان روابط مضبوط کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بین الاقوامی تعاون ضروری ہے اور انڈونیشیا جیسے مسلم اکثریتی ملک کے ساتھ علمی شراکت دونوں ممالک کے لیے یکساں فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ حلال تجارت میں تعاون بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی مارکیٹ میں حلال مصنوعات کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے اور پاکستان و انڈونیشیا جیسے ممالک اس شعبے میں ایک دوسرے کے قدرتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ حلال سرٹیفیکیشن، برآمدی معیار اور مارکیٹ رسائی جیسے عوامل میں قریبی تعاون دونوں ممالک کی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کرسکتا ہے۔ صحت کے شعبے میں طبی ماہرین کے تبادلے اور طبی خدمات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات پاکستان کے لیے انتہائی فائدہ مند ہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے انڈونیشیا کے صدر پرابوو کے مفت غذائیت سے بھرپور کھانے کے پروگرام کی تعریف اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ پاکستان سماجی بہبود کے ایسے ماڈلز سے سیکھنے کا خواہش مند ہے جو عوامی سطح پر حقیقی تبدیلی لاسکیں۔ ملاقات کے دوران کشمیر اور غزہ کی صورت حال پر تبادلہ خیال اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعات کے حل کے لیے مشترکہ عزم ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان اور انڈونیشیا دونوں مسلم دنیا کے اہم ممالک ہیں اور ان کی مشترکہ آواز عالمی سطح پر موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ غزہ کے معاملے پر صدر پرابوو کی فعال سفارتی کوششوں کو سراہنا نہ صرف انڈونیشیا کے کردار کا اعتراف ہے بلکہ یہ بات بھی تسلیم کرنا ہے کہ مسلم دنیا کو باہمی اتحاد، ہم آہنگی اور مشترکہ سفارتی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون مضبوط بنانے کے عزم سے علاقائی توازن پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ پاکستان اور انڈونیشیا دونوں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور اس سلسلے میں معلومات کے تبادلے، مشترکہ تربیتی پروگرامز اور دفاعی تعاون ان خطرات کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔وفود کی سطح پر ہونے والی ملاقات میں چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار، وفاقی وزراء اور اعلیٰ حکام کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان نے اس ملاقات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔ یہ محض رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک جامع اور ہمہ جہت تعاون کی سمت کا تعین تھا۔ گارڈ آف آنر کی تقریب، پرجوش استقبال، اور اعلیٰ سطح اجلاس انڈونیشیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی گہرائی اور سنجیدگی کی علامت ہیں۔ دونوں ممالک کی قیادت نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان اور انڈونیشیا نہ صرف ماضی کے تعلقات کو برقرار رکھیں گے بلکہ انہیں نئی جہتوں میں وسعت بھی دیں گے۔ ان معاہدوں کو محض کاغذی کارروائی نہ سمجھا جائے۔ اصل امتحان ان کے موثر عملدرآمد کا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ حکومتی سطح پر ایسے میکانزم تیار کرے جو ان معاہدوں کو عملی شکل دینے میں معاون ہوں۔ پاکستان کے معاشی حالات اس وقت جس موڑ پر کھڑے ہیں، انڈونیشیا جیسے ملک کے ساتھ مضبوط معاشی اور سفارتی تعلقات پاکستان کو نئی امید، نئے مواقع اور نئے راستے فراہم کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات میں اس نئی پیش رفت کو جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان تعاون کے پل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ یہ تعلقات نہ صرف اقتصادی اور تجارتی مواقع فراہم کریں گے بلکہ دونوں ممالک کو عالمی سطح پر باہمی تعاون کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنے کا موقع بھی دیں گے۔ یہ ملاقات تعلقات میں تازگی اور اعتماد کے ایک نئے دور کی شروعات ہے، ایک ایسا دور جو دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ایک مضبوط، پائیدار اور مستقبل بیں شراکت داری کی بنیاد قائم کر سکتا ہے۔
ترسیلات زر میں قابل قدر اضافہ
پاکستان کی معیشت اس وقت جن مشکل حالات سے گزر رہی ہے، اُن میں کارکنوں کی ترسیلات زر ایک بار پھر نہایت اہم اور مستحکم سہارا بن کر سامنے آئی ہیں۔ نومبر 2025ء کے اعداد و شمار کے مطابق بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے 3.2 ارب ڈالر وطن بھجوائے، جو سالانہ بنیادوں پر 9.4فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملکی مالی حالات عدم استحکام کا شکار ہیں، یہ اضافہ محض خوش آئند ہے۔ مالی سال 26ء کے دوران جولائی سے نومبر تک موصول ہونے والی مجموعی ترسیلات 16.1ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے 14.8ارب ڈالر کے مقابلے میں 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ مسلسل اضافہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانی، عالمی معاشی مشکلات کے باوجود، اپنے خاندانوں اور وطن کے لیے اپنی محنت کی کمائی بھیجنے میں ہچکچاتے نہیں۔ یہی زرِمبادلہ پاکستان کے لیے زندگی کی نئی سانس ہے جو روپے کے استحکام، درآمدات کی ادائیگی اور جاری کھاتے کے خسارے میں کمی کا ذریعہ بنتا ہے۔نومبر کے اعداد و شمار یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ترسیلات زر کا سب سے بڑا حصہ سعودی عرب (753ملین ڈالر) اور متحدہ عرب امارات (675ملین ڈالر) سے آیا۔ یہ دونوں ممالک پاکستانی افرادی قوت کا سب سے بڑا مرکز ہیں، خصوصاً محنت کش طبقہ جو محدود آمدن کے باوجود وطن کے لیے اربوں ڈالر بھیجتا ہے۔ برطانیہ سے 481ملین ڈالر اور امریکا سے 277ملین ڈالر موصول ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی ترسیلات جغرافیائی طور پر بھی متنوع ہیں اور کسی ایک خطے پر انحصار کم ہے۔ لیکن ان مثبت اعداد و شمار کے پیچھے ایک تلخ حقیقت بھی چھپی ہے۔ ترسیلات زر میں اضافہ جہاں بیرونِ ملک محنت کشوں کی محنت اور وطن سے وابستگی کا ثبوت ہے، وہیں یہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ لاکھوں نوجوان بہتر مواقع کی تلاش میں بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کی بھیجی گئی رقوم معیشت کے لیے اہم ہیں، مگر یہ انفرادی مجبوریوں کی علامت بھی ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ترسیلات زر کو مزید مستحکم بنانے کے لیے دو بنیادی کام کرے۔ اول، بینکاری کے باضابطہ نظام کو سستا، تیز اور قابلِ اعتماد بنایا جائے، تاکہ محنت کش غیر رسمی ذرائع کی بجائے قانونی ذرائع اپنائیں۔ دوم، ملک میں تربیتی اداروں کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے، تاکہ پاکستانی افرادی قوت عالمی مارکیٹ میں مسابقت برقرار رکھ سکے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خلیجی اور دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط سفارتی روابط قائم کرے، بہتر لیبر معاہدے کرے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی فلاح کے لیے موثر اقدامات کرے۔ بہتر سہولتیں نہ صرف ترسیلات زر میں اضافہ کریں گی بلکہ اسے مستقل نوعیت کا سہارا بھی بنا سکتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button