Column

’’ ریاست کی جڑوں پر حملہ: عمران کا بیانیہ بطور قومی سلامتی خطرہ

’’ ریاست کی جڑوں پر حملہ: عمران کا بیانیہ بطور قومی سلامتی خطرہ‘‘
کالم نگار: امجد آفتاب
مستقل عنوان: عام آدمی
پاکستان کی تاریخ ہمیشہ سے ایک ایسے امتحان کی داستان رہی ہے جہاں بیرونی خطرات اور اندرونی انتشار ایک ساتھ ریاست کے استحکام کے لیے چیلنج بنے۔ بیرونی دبا، جغرافیائی نزاکت، عالمی طاقتوں کے مفادات اور علاقائی دشمنیوں کے ساتھ ساتھ داخلی سیاسی انتشار نے پاکستان کی بقا کو بار بار ٹیسٹ کیا ہے۔ ایسے ماحول میں ریاست کے ستون صرف وہی ادارے ہوتے ہیں جو ذاتی خواہشات سے بلند ہو کر ملک کے تحفظ، قومی وحدت اور استحکام کو اپنا محور بناتے ہیں۔ اس میں سب سے مضبوط ستون پاک فوج ہے، جس نے ہمیشہ پاکستان کے دفاع، بقا اور نظم کو ہر حال میں مقدم رکھا۔
پاک فوج کی ذمہ داریاں محض سرحدوں کی حفاظت تک محدود نہیں ہیں۔ یہ ادارہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ، داخلی فسادات کی روک تھام، اور عالمی دبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ مشکل ترین حالات میں فوج نے پاکستان کو متحد ریاست کے طور پر برقرار رکھا۔ سیلاب، زلزلے یا انسانی بحران میں فوج کی خدمات واضح ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں فوجی اپنے جانوں کی قربانی دیتے ہوئے لوگوں کو بچاتے ہیں، اور اسی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک سیاسی کمزوریوں کے باوجود پاکستان کی عسکری مضبوطی کو تسلیم کرتے ہیں۔
تاہم پچھلے چند برسوں میں ایک ایسا سیاسی بیانیہ ابھرا جس نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔ عمران خان، جو کبھی امید کی علامت سمجھے جاتے تھے، اپنے بیانیے اور جارحانہ طرز سیاست کے ذریعے ریاستی استحکام کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ بنتے گئے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ قابلِ بحث ہے، مگر جب ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جائے اور عوام میں ان کے خلاف بے اعتمادی پیدا کی جائے تو یہ صرف سیاسی معاملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
ان کے بیانات میں شدت اور تلخی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی۔ سابق عسکری قیادت پر الزام تراشی، ہر سیاسی ناکامی کو اداروں کی سازش قرار دینا، اور فوج کے خلاف عوام میں شکوک پیدا کرنا وہ عناصر ہیں جنہوں نے سیاسی ماحول کو زہر آلود کر دیا۔ پاکستان کے دفاعی ادارے ہمیشہ آئینی دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں، مگر عمران خان کے بیانیے نے انہیں سیاسی دھڑوں کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی بالغ نظری کا تقاضا تھا کہ وہ اداروں کو ریاست کے ستون کے طور پر دیکھیں، مگر الٹا انہوں نے انہیں اپنی سیاسی مہم کا ہدف بنایا۔
صورتحال اس وقت سنگین ترین ہو گئی جب 9مئی 2023ء کو فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے۔ کور کمانڈر ہاس کو آگ لگانا، شہداء کی یادگاروں کی پامالی، اور GHQکے اندر تک حملہ، یہ ریاست کی سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف تھا ۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں یہ تصور بھی ممکن نہیں کہ ایک سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کو اس حد تک لے جائے کہ وہ قومی دفاع کی علامتوں پر حملہ کریں۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ریاستی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بن چکا ہے۔
پاک فوج نے اس صورتحال میں آئینی اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ کسی ذاتی انتقام یا اشتعال انگیزی کے بغیر، فوج نے قانون اور ریاستی اصولوں کے مطابق کارروائی کی۔ یہ رویہ ادارے کی پختگی اور قومی ذمہ داری کی واضح علامت ہے۔ دنیا بھر میں فوج اس طرح کے اقدامات کو سخت قدم سمجھتی، مگر پاکستان میں فوج نے اپنی صبر اور professionalism کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ سیاسی اختلافات میں حصہ نہیں لیتی بلکہ صرف ریاست کی محافظ ہے ۔ علاوہ ازیں، خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی عمران خان کے بیانات نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ ’ سائفر‘ معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جہاں حکومتیں سازش سے بدلتی ہیں۔ یہ تاثر نہ صرف حقیقت سے دور تھا بلکہ عالمی اعتماد کو بھی کمزور کرتا ہے۔ جس ملک پر دنیا شکوک کی نگاہ ڈالے، وہ معاشی، سفارتی اور دفاعی سطح پر کمزور ہوتا ہے۔ عمران خان نے یہ حقیقت نظرانداز کی کہ خارجہ پالیسی نعرے بازی کا کھیل نہیں، بلکہ قومی وقار اور عالمی توازن کا معاملہ ہے۔
عمران خان کی مقبولیت نے انہیں ایک خطرناک اعتماد دیا جس نے انہیں ریاستی اداروں کو چیلنج کرنے پر آمادہ کیا۔ جلسوں میں جوش، تقریروں میں شدت، اور سوشل میڈیا پر نفرت بھری مہمات، یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے معاشرے میں انتشار کو جنم دیا۔ سیاسی اختلاف جمہوریت کا حصہ ہو سکتا ہے، مگر جب فوج جیسے ادارے کو نشانہ بنایا جائے تو یہ ایک داخلی خطرہ بن جاتا ہے جو ملک کے دفاعی ڈھانچے پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
پاکستان کا مستقبل کسی فرد کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اداروں کی مضبوطی اور سیاسی ذمہ داری میں مضمر ہے۔ مقبولیت وقتی ہوتی ہے، مگر ریاست مستقل ہوتی ہے۔ عمران خان کی سیاست وقتی جذبات اور غصے پر مبنی ہے، جبکہ پاک فوج کا کردار وقت اور حالات سے ماورا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو واضح کرتی ہے کہ ریاست کی بقا افراد کی مقبولیت سے نہیں بلکہ اداروں کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔
آج پاکستان کی ضرورت اتحاد، ہوش مندی اور ذمہ دار قیادت کی ہے۔ فوج کے خلاف بیانیہ ملک کو کمزور کرتا ہے، جبکہ ریاستی یکجہتی اسے مضبوط بناتی ہے۔ سیاسی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی سلامتی افراد کے فیصلوں سے نہیں بلکہ اداروں کی مضبوطی سے وابستہ ہے۔ پاک فوج اس ریاست کی ضمانت ہے، اور اس کے خلاف بیانیہ دشمنوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
ریاست کی بقا میں اداروں کے کردار کو کمزور کرنے والے بیانیے کسی بھی ملک کی تاریخ میں سب سے خطرناک ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ عمران خان کا بیانیہ آج واضح داخلی خطرہ ہے، اور یہ حقیقت ہر شہری اور ہر قیادت کو سمجھنی ہوگی۔ فوج کے بغیر پاکستان کی سرحدیں اور اندرونی نظم و نسق کمزور ہو جائیں گے۔ اسی لیے اداروں کی حفاظت اور احترام صرف رسمی بات نہیں، بلکہ قومی ضرورت ہے۔
تاریخ کا فیصلہ واضح ہے: پاکستان مضبوط تب رہے گا جب فوج مضبوط رہے گی، اور کمزور تب پڑے گا جب سیاست دان اپنی انا کی خاطر ریاستی ستونوں پر حملہ کریں گے۔ عمران خان کا بیانیہ آج ملکی سلامتی کے لیے ایک واضح داخلی خطرہ بن چکا ہے، جبکہ پاک فوج بدستور ملک کے دفاع، استحکام اور وحدت کی آخری دیوار ہے۔ پاکستان کی بقا اداروں کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہے، کسی فرد کے بیانیے کے پیچھے چلنے میں نہیں۔

جواب دیں

Back to top button