
آئی ایس آئی کے سربراہ کو عموماً پاکستان میں فوج کے سربراہ کے بعد دوسرا سب سے طاقتور افسر تصور کیا جاتا ہے۔ جنرل فیض حمید 2019 سے 2021 تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور عالمی سطح پر اُن کی شہرت اس وقت بڑھی جب وہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے اور امریکی و دیگر مغربی افواج کے انخلاء کے بعد کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں چائے پیتے نظر آئے تھے۔
فیض حمید نے اپنے کریئر کے دوران مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں، وہ پشاور اور بہاولپور کور کی کمانڈ بھی کر چکے ہیں۔ لیکن اُن کے خلاف نومبر 2023 میں سپریم کورٹ میں ایک شہری نے درخواست دائر کی تھی جس کے بعد اُن کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا تھا۔
معاملہ یہ تھا کہ اسلام آباد کی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ‘ٹاپ سٹی’ کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں الزام لگایا تھا کہ 12 مئی 2017 کو ان کی پراپرٹی پر رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور سونا، ہیرے اور قیمتی سامان اپنے ہمراہ لے گئے۔
سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کے بعد اگست 2024 کو اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ فیض حمید کے خلاف درخواست گزار کے گھر کا سامان اور سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کرنے کے الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
جس وقت فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو وہ اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ بعدازاں فوج نے کورٹ مارشل کی کارروائی کے لیے انہیں تحویل میں لے لیا تھا۔
فوج نے اُس وقت ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اُن پر آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی اور غلط رویے کے الزامات کی بنیاد پر مقدمہ بنایا گیا تھا۔
فیض حمید کے خلاف مقدمہ پاکستان آرمی کی تاریخ کے سب سے نمایاں کورٹ مارشل کیسز میں سے ایک ہے۔ کیوں کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید دوسرے تھری اسٹار جنرل اور آئی ایس آئی کے پہلے چیف تھے جو اس طرح کی کارروائی کا سامنا کر رہے تھے۔







