تلخیاں

تلخیاں
محمد مبشر انوار
پاکستان کی عسکری اہلیت کا مظاہرہ ہم پاکستانیوں نے رواں سال ایک طویل عرصہ کے بعد مئی میں دیکھا تھا جب پاکستانی فضائیہ نے انتہائی مہارت و چابکدستی کے ساتھ بھارتی غرور و عزائم خاک میں ملائے اور دنیا بھر میں اپنی اہلیت کا سکہ جمایا۔ اس سے قبل چار دن تک بھارت نے دنیا بھر میں ایک طرف ہمارا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو دوسری طرف اسرائیلی حمایت و عسکری تعاون سے ہر صورت پاکستانی اہلیت کا بھرپور جائزہ لینے کی کوششوں میں مصروف رہا تاہم اس دوران پاکستان نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کسی بھی ردعمل سے گریز کرنے پر اکتفا کیا کہ کسی نہ کسی صورت یہ سخت وقت ٹل جائے اور دشمن کو ہماری عسکری طاقت کا اندازہ نہ ہوسکے۔ ممکنہ طور پر یہ کوشش، وقت کی مناسبت سے ہی تھی لیکن جب بھارتی حد سے گزرے تو پاکستانی شاہینوں نے ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ صرف چار گھنٹوں کے اندر ہی بھارت گھٹنوں پر آ گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا حمایتی اسرائیل بھی انگشت بدنداں نظر آیا کہ وہ تو پاکستان کو پکی پکائی کھیر ہی سمجھتے تھے اور اپنے تئیں کہیں بھی، کسی بھی طرح پاکستان کو نگلنے کے لئے تیار تھے۔ بہرطور اس کے متعلق دیگر حقائق آج ساری دنیا کے سامنے ہیں کہ جب تک امریکہ بہادر نے کھل کر اسے دو ملکوں کے درمیان معاملہ قرار نہیں دیا تھا، پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی جوابی کارروائی نہیں کی گئی اور جیسے ہی امریکہ نے اسے دو ملکوں کے درمیان معاملہ قرار دے کر، بھارت و اسرائیل کو تھپکی دی، آنکھ ماری تو پھر پاکستان نے اپنی اہلیت کی چھوٹی سی جھلک دکھائی، جس نے صرف ان دو ممالک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس وقت بھی ساری دنیا کو علم ہے کہ بھارت، افغانستان کے راستے بلاواسطہ پاکستان میں دراندازی کر رہا ہے اور افغان حکومت نجانے کس گمان میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی نان سٹیٹ ایکٹرز کی کارروائیوں پر درپردہ ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے۔ افغان حکومت کی ایسی سیاست سے سراسر نقصان افغانستان کا ہونا ہے کہ اس وقت دنیا ایسے کارناموں کی متحمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی افغان حکومت کو ایسے کارناموں کی کسی بھی صورت اجازت دی جا سکتی ہے اور یہی صورتحال اب بھارت کے لئے بھی ہے جو درپردہ ایسی کارروائیوں میں براہ راست ملوث رہتا ہے لیکن چور مچائے شور کے مصداق، اس کا الزام ہمیشہ پاکستان پر دھرتا رہا ہے لیکن اب صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے اور دنیا ان حقائق سے بخوبی واقف ہو چکی ہے۔
بہرحال کچھ حصہ ماضی کی اس چھوٹی سی جھڑپ، کہ صرف چار دن بھارتی یکطرفہ کارروائی اور پاکستان کی چار گھنٹے فضائی کارروائی کے بعد، معاملات مکمل طور پر پاکستان کے حق میں ہو چکے تھے، لیکن پاکستان نے کبھی بھی ایسی بہادری کا مظاہرہ کرنے والوں سے آنکھیں نہیں چرائی اور ویسے بھی پاکستانی مخصوص حالات میں آنکھیں چرانا ممکن بھی نہیں تھا۔ پاکستان نے فوری طور سپہ سالار کو فیلڈ مارشل کا عہدہ عطا کیا، گو کہنے والے کچھ بھی کہتے رہیں، ان کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے، کہ عہدہ تو بہرطور سپہ سالار کو پورے اعزاز کے ساتھ دیا گیا۔ جبکہ اتنی بڑی عسکری کامیابی کے بعد متفقہ عسکری قیادت کے لئے ایک نیا عہدہ بالخصوص تخلیق کیا گیا، اور فیلڈ مارشل 2030ء تک چیف آف ڈیفنس فورسز تعینات ہو گئے۔ ادھر حکومت کو بھی ایک بار پھر یہ تسلی ہوگئی کہ انہیں بھی فارم 47کے تحت حکومت بنانے کا موقع مل جائے گا۔ بہرحال یہ خواہشات تو حکومت وقت کی ہیں اور کون جانے کل کیا ہو جائے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھے، قبل از وقت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم تحریک انصاف آج بھی اپنی سی جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہے، جبکہ حکومتی وزراء کی جانب سے یہ بیانات انتہائی شدومد کے ساتھ سنائی دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی سیاست اب ختم ہو چکی ہے۔
رہی سہی کسر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور ان کے لہجے نے پوری کردی ہے، جس کے جواب میں ایک طرف حکومتی وزراء نئے جوش و جذبے کے ساتھ، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا دفاع کرنے کے لئے آستینیں چڑھائے نمودار ہوئے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف بھی میدان میں اتر آئی ہے۔ حیرت تو اس امر پر ہوتی ہے کہ ہمارا نظام انصاف، جو دنیا بھر میں عدل کا ضامن و عوامی حقوق کا نگہبان ہوتا ہے، ایک قیدی کو اس کے بنیادی حقوق تک دلوانے سے قاصر ہے۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ عدالتی احکامات لے کر جیل کے دروازے تک جانے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسرے صوبے کی پولیس اس کا راستہ روک لیتی ہے، جیل حکام عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں، ملاقاتیوں کو دن ڈھلے تک انتظار کرایا جاتا ہے اور بعد ازاں انہیں پولیس کی گاڑیوں میں کہیں دور ویرانے میں اتار دیا جاتا ہے۔ قیدی کی بہنوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے، ان پر تشدد ہوتا ہے، انہیں اولاد کا دکھ دیا جاتا ہے جو تمام تر ثبوتوں کے باوجود اٹھا لئے جاتے ہیں، لیکن نجانے یہ خاندان کس مٹی سے بنا ہے کہ اپنے موقف سے ٹس سے مس نہیں ہورہا اور تاحال اپنے موقف پر مضبوطی سے ڈٹا کھڑا ہے۔ بہرحال جو زبان استعمال کی ہے، اس کی ستائش کسی بھی صورت نہیں کی جا سکتی اور اس کا جواب تحریک انصاف نے انتہائی ہوش مندانہ طریقے سے اپنے پشاور کے جلسہ میں دے کر اپنا قد کاٹھ مزید بلند ہی نہیں کیا بلکہ خود کو ایک محب الوطن جماعت کے طور پر محفوظ کر لیا ہے۔ گو کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے بالغ نظری و سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن عوامی جوش و خروش اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ عوام آج بھی اپنے قائد کے ساتھ کھڑی ہے، جبکہ شنید یہ ہے کہ گزشتہ دنوں اڈیالہ جیل کے باہر صرف پختونخوا سے ہی عوام اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ پنجاب سے بھی عوام تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اڈیالہ کے باہر موجود تھے۔ یہ چیز اس حقیقت کو آشکار کر رہی ہے کہ خوف کا ہتھیار انتہائی بے رحمی سے استعمال ہوا اور اب عوام اس ہتھیار کے سامنے بھی کھڑے ہونے کے لئے تیار ہیں کہ ہر عمل ایک انتہا کے بعد اپنی حیثیت کھو دیتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر یکطرفہ و انتقامی کارروائی نے عوامی اذہان کو اس کے خلاف نکلنے کے لئے تیار کر دیا ہے۔ 26 نومبر کو ڈی چوک میں ہونے والے سانحے کے باوجود اگر عوام جلسہ عام میں مسلسل ڈی چوک کے نعرے لگا رہے ہیں، احتجاج کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ عوام تخت یا تختہ کرنے کے لئے تیار ہیں، کیا ارباب اختیار اس کے لئے تیار ہیں؟، کیا ایک اور 26نومبر یا اس سے زیادہ بہیمانہ ظلم و ستم کرنے کی حکومت متحمل ہو سکتی ہے، بالخصوص کہ اس مرتبہ دوسری جانب علی امین گنڈا پور جیسی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والی شخصیت بھی موجود نہیں بلکہ ایک ایسا وزیراعلیٰ ہے، جو اپنے قائد سے ملنے کے لئے ہر ممکن قانونی چارہ جوئی کر رہاہے اور اپنے ووٹرز کو بتا بھی رہا ہے، اس نوجوان وزیراعلیٰ کے متعلق شنید یہی ہے کہ وہ بھی اپنے قائد کی طرح اپنے موقف سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ اس وقت پاکستان عالمی سطح پر ایک اہم حیثیت اختیار کر چکا ہے اور کئی ایک معاملات میں عالمی رہنما پاکستان کے ساتھ صلاح مشورے بھی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف حالت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر، پاکستانی سیاست میں ارباب اختیار باہم دست و گریباں ہے اور ذاتی انا و ضد کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کی یہ تلخیاں کیا روپ دھاریں گی اور پاکستان کو کس طرف لے جائیں گی، ان کے متعلق سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں، اللہ کریم ان تلخیوں کو ختم کرنے کی کوئی سبیل بنا دے۔ آمین





