بھیک نہیں، باعزت روزگار دیں
رفیع صحرائی
بہت مشہور واقعہ ہے۔ ہم سب نے نصاب کی کتابوں میں بھی پڑھا ہے کہ ایک صحابی رضی اللّٰہ عنہ، نبی علیہ السلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، فاقوں کی نوبت ہے کچھ مدد کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پوچھنے پر ان صحابی نے بتایا کہ گھر میں صرف ایک پیالہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے وہ پیالہ منگوایا اور وہیں پر دو درہم میں فروخت فرما کر ان صحابی سے فرمایا ایک درہم کی کلہاڑی اور رسی اور دوسرے درہم کی کھانے پینے کی چیزیں لے آئو۔ جب وہ بازار سے واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کلہاڑی میں اپنے ہاتھ سے دستہ ٹھونکا اور فرمایا۔ ’’ جائو! اس کلہاڑی کے ساتھ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں فروخت کیا کرو‘‘۔ وہ صحابی رضی اللّٰہ عنہ چلے گئے اور حسب الحکم لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کا کام شروع کر دیا۔ چند روز بعد دوبارہ خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ گھر کے حالات ٹھیک ہو گئے ہیں اور چند درہم کی بچت بھی ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے حالات سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’ میں نہیں چاہتا تھا کہ قیامت کے دن تمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہو‘‘۔
اب ذرا وطنِ عزیز کی طرف آ جائیے۔ ملک کی کثیر آبادی کو سرکاری طور پر ہر ماہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھیک دے کر ایک چوتھائی آبادی کی پیشانیاں داغ دار کی جا رہی ہیں۔ لوگ اس قلیل رقم کے حصول کے لیے پہروں قطاروں میں لگ کر ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں۔ عجیب دھینگا مشتی کا منظر ہوتا ہے۔ ایسے میں ٹائوٹ مافیا بھی سرگرم ہوتا ہے اور اپنا کمیشن کھرا کر کے سہولت کے ساتھ یہ رقم دلواتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری حکومت بے نظیر انکم سپورٹ کے مستحقین کے لیے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ ان لوگوں کو ہنرمند بنانے کے لیے عملی اقدام کرے تاکہ یہ لوگ ملک پر بوجھ بننے کے بجائے مفید شہری بن سکیں۔ ورنہ ان لوگوں کی طرح ان کی اولادیں بھی ’’ سرکاری امداد‘‘ کی منتظر ہی رہا کریں گی اور ملکی معیشت ناقابلِ برداشت بوجھ کے نیچے دبتی چلی جائے گی۔
بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ میں ایک بل آیا کہ کیوں نہ بنگلہ دیش میں بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا پروگرام شروع کیا جائے۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں 80فیصد ممبران نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور تجویز دی کہ ایسا روزگار کا کوئی پروگرام شروع کیا جائے کہ قوم بجائے بھکاریوں کی لائینوں میں کھڑے ہونے کے باعزت روزگار کا حصول اپنائے۔
انہوں نے گارمنٹس کو متعارف کرایا آج بنگلہ دیش کی کامیابی کا یہ حال ہے کہ بنگلہ دیش یورپ کو گارمنٹس کی برآمدات میں چائنہ کے برابر جارہا ہے جبکہ پاکستان میں ہم نے بینظیر پروگرام میں عوام کو خیرات لینے والوں کی قطاروں میں اس طرح کھڑا کیا کہ روز بروز قطاریں لمبی ہوتی جارہی ہیں۔
آج بنگلہ دیش نے اپنی خواتین کو باعزت روزگار دے کر ملکی معیشت کو بھی ترقی دی اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بھی بنایا جبکہ ہم نے اس کے برعکس قوم کی عورتوں اور مردوں کو بھکاری بنا دیا۔
سال 24۔2023کے بجٹ میں حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ کے بجٹ کو 404ارب سے بڑھا کر 455ارب روپے کر دیا تھا۔ موجودہ بجٹ سال 25۔2024میں اس رقم میں مزید 27فیصد اضافہ کر کے اس کا حجم 593 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ 2008ء میں شروع ہونے والے اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دو سال پہلے مستحق گھرانوں کی تعداد 9ملین تھی جسے بڑھا کر گزشتہ سال 9.3ملین کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ امسال یہ ہدف 10ملین کر دیا گیا ہے۔ یعنی وطنِ عزیز میں ایک کروڑ گھرانوں کو حکومت کی جانب سے عملاً بھکاری بنا دیا گیا ہے۔ ہر گھر میں اوسطاً پانچ افراد ہوں تو گویا سرکاری بھکاریوں کی تعداد پورے پانچ کروڑ ہے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں دی جانے والی رقم فی خاندان تین ہزار پانچ سو (3500)روپے فی مہینہ بنتی ہے جو اس مہنگائی کے دور میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ اگر ان 593ارب روپوں سے ایک ارب روپے فی کارخانہ یا مِل کے حساب سے 593کارخانے اور ملیں قائم کر دی جاتیں تو ملک سے بے روزگاری میں ایک بڑی کمی واقع ہوتی۔ ہر سال اسی شرح سے اس مد میں کارخانے اور صنعتیں قائم کرتے جائیں تو پورے ملک میں انڈسٹریز کا جال بچھ جائے گا۔ بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا۔ مصنوعات کی ایکسپورٹ سے بھاری زرِ مبادلہ حاصل ہو گا اور ملک میں خوش حالی آ جائے گی۔
اس کے علاوہ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں گھریلو دستکاریوں کو فروغ دیا جائے۔ ہر شہر، قصبے اور گائوں میں ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس کا قیام عمل میں لا کر نوجوان مرد و خواتین کو کسی نہ کسی ہنر سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
نوجوان لڑکیوں کو سلائی کورس مکمل کرنے کی صورت میں انعام کے طور پر سلائی مشینیں دی جائیں جن کی مدد سے وہ برسرِ روزگار ہو سکیں اس طرح ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت کو بھی ترقی دی جا سکتی ہے۔ گارمنٹس کو ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ دیہات اور قصبوں میں پلاسٹک فیکٹریاں لگا کر پلاسٹک کے برتن اور استعمال کی دیگر اشیاء بنائی جا سکتی ہیں۔ مرغ بانی اور ماہی پروری کو باقاعدہ ایک مہم چلا کر فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پلاسٹک کے جوتے بنانے والی فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔ پھولوں کی کاشت کاری کا کام بہت آسانی سے شروع کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف خلوصِ نیت کی ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں واحد ایسا ملک ہے جس کی 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر بدقسمتی سے ان کی اکثریت بے روزگار ہے۔ اس کی وجہ روزگار کے زیادہ مواقع نہ ہونا اور سرکاری نوکری کو فوقیت دینا ہے۔ گھریلو
صنعتوں کو فروغ دے کر اور ہنرمندی کے مواقع فراہم کر کے کئی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں مثلاً بے روزگاری پر قابو، شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان میں کمی، ایکسپورٹ میں اضافہ، زرِمبادلہ میں اضافہ، معیشت میں استحکام اور ملک پر بوجھ بننے والے افراد میں کمی۔ اور سب سے بڑھ کر باوقار قوم کے سٹیٹس کا حصول بھی ممکن ہو جائے گا۔ ضرورت صرف مافیاز سے ٹکرانے والے حکمران کی ہے۔ جنہوں نے ہر سیاستدان اورسیاسی جماعت کوکثیر فنڈنگ کے ذریعے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔