ColumnRoshan Lal

شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی کانفرنس .. روشن لعل

روشن لعل

 

شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) کی 23ویں سربراہی کانفرنس 4اور 5مئی کو بھارت میں منعقد ہوگی۔ اس تنظیم کی سربراہی کانفرنس کے انعقاد میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ باقی ہے مگر ابھی تک اس میں پاکستان کی شرکت کے متعلق ابہام موجود ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں پاکستان کے شریک ہونے یا نہ ہونے کے متعلق ابہام کی وجہ سے یہاں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے حکام حتمی طور پر اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے متعلق پاکستان کے ممکنہ فیصلے کو اگر یہاں بڑی تعداد میں سراہنے والے لوگ موجود ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جن کے خیال میں ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر اس طرح کے فیصلے کو درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ جو لوگ انڈیا میں منعقدہ شنگھائی تعاون سربراہی کانفرنس میں پاکستان کے شرکت نہ کرنے کے ممکنہ فیصلے کو غلط سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمارے معاشی مسائل کے حل کی صرف یہی ایک کنجی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ہم انڈیا اور وسط ایشیائی ریاستوں کو تجارت کے لیے زمینی راہداری اور دیگر سہولتیں فراہم کر دیں۔ اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جو خواہش ظاہر کی جارہی ہے وہ صرف اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم یا ختم ہو۔ پاک ، بھارت تعلقات میں کشیدگی ختم کرنے کا آغاز کرنے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی کانفرنس میں شرکت سے پاکستان کی طرف سے پہلا قدم اٹھانے کا تاثر دیا جا سکتا ہے۔ لہذا ہمیں فوراً اس کانفرنس میں
شرکت کا اعلان کر دینا چاہیے۔ اس کانفرنس میں شرکت کا اعلان کرنے کے بعد ہماری طرف سے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ تحفظات کے باوجود ہم بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اس کے علاوہ قازقستان، کرغیزستان ، تاجکستان اور ازبکستان جیسی وسط ایشیائی ریاستیں جو پاکستان کی طرح شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکن ہیں وہ اپنے معاشی مفادات کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی طرف راغب ہوسکتی ہیں۔
جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان کو 23ویں شنگھائی تعاون سربراہی کانفرنس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب جیسا ملک جو انتہائی تیزی سے اپنی معیشت کا انحصار تیل کی بجائے صنعت و تجارت پر منتقل کر رہا ہے ، وہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا ڈائیلاگ ممبر بننے کے بعد مکمل ممبرشپ لینے کی طرف گامزن ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں اس تنظیم سے وابستہ ملکوں کے ترقی کرنے کا امکان اسی طرح موجود ہے جس طرح آسیان تنظیم سے تعلق رکھنے والے ملک ترقی کرتے ہوئے ایشین ٹائیگر بنے۔ واضح رہے کہ تیزی سے صنعت و تجارت میں ترقی کی طرف رخ کر چکے سعود ی عرب نے شنگھائی تعاون تنظیم کی طرف مائل ہونے سے پہلے اپنے دیرینہ حریف ایران کے ساتھ ازسرنو سفارتی تعلقات قائم کیے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان دہائیوں سے چلی آرہی کشیدگی ختم ہو سکے۔ جس شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت مشکوک ہے اس میں نہ صرف سعودی عرب نئے ڈائیلاگ پارٹنر بلکہ ایران نئے مکمل رکن کی حیثیت میں شرکت کرے گا۔ سعودی عرب تو 2023 میں ایس سی او کا ڈائیلاگ ممبر بن رہا ہے مگر پاکستان اور بھارت کو 2017میں ایک ساتھ تنظیم کا مکمل رکن بنایا گیا تھا۔
اس سے قبل پاکستان اور بھار ت2005میں ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر اس تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوئے تھے۔ شاید یہ بات ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہوئی ہو کہ 2017میں قازقستان کے شہر آستانا میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس سے قبل بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک پاکستان کا غیر سرکاری دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران مودی نے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف سے ان کی ذاتی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ مودی کی اچانک پاکستان
آمد کا تعلق اصل میں پاکستان اور بھارت کے
شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بننے سے تھا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس وقت بھی کشیدہ تھے ۔ تنظیم کے قواعد و ضوابط کے مطابق اس وقت یہ ممکن نہیں تھا کہ پاکستان یا بھارت میں سے صرف کسی ایک کو ایس سی او کا ممبر بنایا جاتا۔ اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے اس تنظیم کی رکنیت حاصل کرنا کیونکہ بھارت کی ترجیح تھی اس لیے نریندر مودی نے اچانک پاکستان کا غیر سرکاری دورہ کر کے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف کے ساتھ معاملات طے کیے تھے۔ جب پاکستان اور بھارت ایک ساتھ ایس سی او کے ممبر بنے اس وقت کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ ان دنوں وسط ایشیائی ریاستیں افغانستان میں تیزی سے تجارتی شاہراہوں کی تعمیر پر سرمایہ کاری کر رہی تھیں کیونکہ وہ جلد از جلد پاکستان کی بندرگاہوں تک رسائی اور ہماری سڑکوں کو بھارت کے ساتھ تجارتی راہداری کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ امریکہ میں ٹرمپ اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت بن گئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے پلوامہ اور پٹھان کوٹ کی دہشت گردی کا الزام پاکستان پر عائد کر کے پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات اور حتیٰ کہ پاکستان میں منعقدہ کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس قسم کے واقعات کے تسلسل میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی اور شنگھائی تعاون تنظیم کے وسط ایشیائی رکن ملکوں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا کہ ان کے لیے مستقبل قریب میں افغانستان اور پاکستان کو تجارتی راہداری کے طور پر استعمال کرنا ممکن ہو سکے گا۔ بھارت میں منعقدہ ایس سی او سربراہی کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے اگر اس وقت پاکستان گو مگو کا شکار ہے تو بھارت کا حال بھی یہ ہے کہ اس نے کھلے دل سے نہیں بلکہ تنگ نظری سے ہمیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ بھارت کی تنگ نظری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ستمبر2023میں پاکستان میں منعقد ہونے والے ایشیا کرکٹ کپ میں شرکت سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اس طرح انکار کرتے وقت بھارت نے یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ پاکستان بھی ان کے ملک میں اکتوبر 2023میں منعقد ہونے والے ورلڈ کرکٹ کپ میں شرکت سے انکار کر سکتا ہے۔ دراصل اس وقت بھارت میں یہ تصور تقویت حاصل کر رہا ہے کہ پاکستان اس حد تک مالی مشکلات کا شکار ہے کہ بھارت کے ایشیا کپ میں شرکت سے انکار کے باوجود وہ بھارت میں منعقدہ ورلڈ کپ میں ضرور شرکت کری گا کیونکہ پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ورلڈ کپ میں شرکت سے انکار کر کے وہ خود کو آئی سی سی سے ملنے والے کروڑوں ڈالر کی رائلٹی سے محروم کر لے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے سے پاکستان کو نہ تو کوئی فوری معاشی نقصان اور نہ ہی کوئی فوری فائدہ ہوگا مگر یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے دیرپا معاشی مفادات کے لئے پاک بھارت تعلقات میں بہتری آنا بہت ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button