Editorial

سیلاب متاثرین کی بحالی قومی فریضہ

 

ملک بھر میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں،سیلابی ریلےخیبرپختونخواسےپنجاب میں داخل ہوچکے ہیںلیکن خیبرپختونخواسےزمینی رابطہ تاحال منقطع ہے ، چارسدہ میں دریا کنارے آبادیاں ڈوب چکی ہیں اور ان کے ایک لاکھ80ہزارسےزائد افراد بےگھر ہوگئے ہیں، ٹانک کانوے فیصد حصہ تباہ ہوگیاہے، متاثرین نے پشاور موٹروے پر پناہ لی ہوئی ہے لیکن سیلابی ریلاعارضی پناہ گاہوں کی جانب بھی آرہا ہے۔ سندھ میں اڑھائی سو سے زائد دیہات ڈوب چکے ہیں اور زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سندھ میں نئے سیلاب کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے اور اسی لیے دریائوں کے کنارے آبادیوں سے انخلا کا حکم جاری کردیاگیا ہے۔ مجموعی طورپر سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور دور دراز کے علاقوں تک رسائی ناممکن ہوچکی ہے ۔ بپھری موجوں سے بچ نکلنے والوں کو نئے امتحان کا سامنا ہے، خوراک اور پینے کا پانی تمام تر کوششوں کے باوجود یا تو دستیاب نہیں یا ضرورت کے مطابق وافر نہیں، سر ڈھانپنے کوبھی ٹھکانہ نہیں اور متاثرین خیموں اور ٹینٹ وغیرہ کے منتظر ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مچھروں اور دیگر حشرات کی بھرمارسے بیماریاں پھوٹنے لگی ہیں اور متاثرین کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مرتب کردہ اعدادو شمار کے مطابق مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں تین کروڑ انتیس لاکھ چار ہزار چھ سو سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ چار لاکھ بیالیس ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں۔ چار لاکھ اٹھانوے ہزار سے زائد کو کیمپوں میں منتقل کیا جاچکا ہے اور سیلاب سے ایک ہزار کے لگ بھگ افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور ابتدائی جائزے کے مطابق ملکی معیشت کو کم از کم 10 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے لیکن صورتحال قابو میں آنے کے بعد نقصان کا صحیح اندازہ ہوگا جو یقیناً دس ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہوسکتاہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں اور انسانی جانیں ضائع ہونے کے مناظر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں اور بلاشبہ دیکھنے والوں کے لیے یہ قیامت صغریٰ سے کم والی صورتحال نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بھی متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے اعلانات کیے جارہے ہیں اور پوپ فرانسس نے عالمی برادری سے سیلاب سے متاثرہ پاکستان کی مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ سیلاب کے بے شمار متاثرین، زخمیوں اور بے گھر افراد کے لیے دعا بھی کریں۔ دوست ممالک نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان بھیجنا شروع کردیا ہے اور پہلی امدادی کھیپ ترکیہ اور امارات سے پہنچ گئی ہے۔ یو اے ای سے پرواز تین ہزار ٹن سے زائد امدادی سامان بشمول خیمے، خوراک، ادویات لیکر پہنچی ہے جبکہ مزید پندرہ طیاروں کی آمد متوقع ہے۔استنبول اور کویت نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے امداد پہنچا دی ہے اسی طرح آذربائیجان نے ملین اور قطر نے ایک لاکھ لاکھ ڈالرز دینے کا اعلان
کیا ہے۔ ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی حکومتی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے یورپ سمیت دیگر کئی ممالک پاکستان کو امدادی سامان بھیج رہے ہیں، دوست ملک چین سے خیموں کی ایک کھیپ بھی جلد پہنچ جائے گی، جسے سیلاب سے متاثرہ افراد کو فوری طور پر فراہم کیا جائے گا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے دورہ کے دوران بحالی کے لیے دس ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی زندگی میں ایسا تباہ کن سیلاب پہلے کبھی نہیں دیکھادوسری طرف پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے متحدہ عرب امارات کے حکام نے رابطہ کیا ہے اور آرمی چیف سے گفتگو کے دوران متحدہ عرب امارات کے حکام نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد فوری بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جو خود بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کادورہ کررہے ہیں، آرمی چیف نے سندھ کے علاقے خیرپور اور قمبر شہداد کوٹ کے دور دراز سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیااور پورا دن سیلاب زدگان کے ساتھ گائوں جیلانی، خیرپور اور قمبر شہداد کوٹ میں مقامی آبادی کے لیے قائم کئے گئے امدادی اور طبی کیمپوں میں گزارا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے وہاں موجود فوجیوں سے بھی ملاقات کی اور مدد کے منتظر لوگوں کو امداد پہنچانے کے لیے ان کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے سیلاب زدگان کے لیے مددکی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں ریلیف اور ریسکیو آپریشن قریباً ختم ہو چکا ہے اور اب بحالی کا معاملہ ہے جو بہت سال لےگااس کے لیے ہمیں پوری قوم کی مدد چاہیے۔ چیف آف آرمی سٹاف کی ہدایت پر ملک گیر سطح پر سیلاب زدگان کے لیے لاہور سمیت جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن، ہیلی آپریشن اور راشن کی تقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے اور پاکستان نیوی کابھی ساحلی اور کریکس کے علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن جاری ہے جبکہ سندھ حکومت کی خصوصی درخواست پر پاک بحریہ نے امدادی آپریشنز کا دائرہ کار سانگھڑ، قمبر شہداد کوٹ، سکھر، بکرانی،لاڑکانہ، میرپور خاص اور دادو کے مختلف علاقوں تک بڑھا دیا ہے۔ خیبرپختونخوا سےسیلابی ریلےپنجاب میں داخل ہونے کی صورتحال کے باعث وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے میانوالی میں سیلاب کے خدشے کے پیش نظر انتظامیہ کو حفاظتی انتظامات کے لیے چوکس رہنے کا حکم دیا ہے،افسران دریائے سندھ کے بند ، حفاظتی پشتوں کا جائزہ لیں، ادویات، پینے کے پانی، ضروری سامان کا وافر سٹاک رکھا جائے۔ لوگوں کے بروقت انخلا کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں،حفاظتی انتظامات ہر لحاظ سے موثر اور جامع ہونے چاہئیں، دریائے سندھ میں پانی کے بہا ئوکو 24 گھنٹے مانیٹر کیا جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس جوش و جذبے کے ساتھ قوم سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے باہر نکلی ہے اس جوش و جذبے کو متاثرین کی بحالی تک برقرار رکھا جائے کیونکہ ہمارے ہم وطن بے یارومددگار ہیں اور اُن کی مدد ہمارا قومی فریضہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button