ہدیہ تبریک .. عبدالحنان راجہ
عبدالحنان راجہ
عالی خانوادہ، پروقار ادا اور اس پہ خوش طبعی و منکسر المزاجی ہو تو شخصیت اور بھی سحر انگیز ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے دور جدید کے مواصلاتی انقلاب خصوصاًسوشل میڈیا نے جہاں آگاہی و روابط کے نئے دروازے کھولے وہیں اس سے جنم لینے والے طوفان بدتہذیبی نے ہماری روایتی اقدار کو پامال کر دیا۔ مجالس علم کہ جہاں فکری، نظریاتی، علمی اور اخلاقی تربیت کا ساماں ہوتا تھا بند ہو گئیں، نتیجتاً آداب اختلاف بھی جاتے رہے اور مذہبی و سیاسی شدت پسندی نے معاشرتی اقدار کو روبہ زوال کر دیا۔ ہم بحیثیت قوم انحطاط کا شکار ہوئے اور اس کی جھلک تحریروں، تقریروں اور میڈیا بیانات میں نظر آتی ہے۔ دلوں میں تنگی اور مزاج میں تندی، طعن و تشنین کا کلچر عام ہوا تو اہل ادب نے گوشہ نشینی میں عافیت جانی۔ چانسلر محی الدین اسلامک یونیورسٹی صاحبزادہ سلطان العارفین سے پہلی ملاقات تھی کہ وہ شہید بھتیجے میجر طلحہ منان کی شہادت کا سن کر گھر تشریف لائے علمی اور روحانی خانوادہ کے چشم و چراغ اور پھر ضیا الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری سے اکتساب فیض نے سلطان العارفین کو رنگ عارفانہ عطا کیا۔ جس کی جھلک دوران گفتگو مثنوی مولائے کے تذکرہ کی صورت میں نظر آئی اس نشست نے آتش عشق کو اور ہوا دی۔ ان کے والد گرامی قبلہ پیر علائو الدین صدیقی نے دم توڑتے خانقاہی نظام میں علم و عمل کا نور بکھیرا اور تصوف کی حقیقی روح جسے قطب ربانی سید عبدالقادر جیلانی نے غنیتہ الطالبین اور سید علی ہجویریؒ نے کشف المحجوب میں بیان کیا، کو پھر سے زندہ کرنے کی عملی سعی کی اور ٹی وی کی بنیاد رکھی تو اس سے متلاشیان علم کی پیاس بجھنے لگی بالخصوص پیر صاحب کے دروس مثنوی کو بہت شہرت ملی۔ سلطان العارفین شہید کے والد عبدالمنان کو بتا رہے تھے کہ نصیر ملت پیر سید نصیر الدین دورہ برطانیہ کے
دوران والد گرامی سے ملنے تشریف لائے تو بے ساختہ کہا کہ اگر قبلہ عالم پیر سید مہر علی شاہ حیات ہوتے تو پیر علائو الدین صدیقی کے دروس مثنوی میں شریک ہوتے۔ اس پر انکے ہمراہی کئی احباب معترض بھی ہوئے کہ اب وسعت قلبی اور طریقہ اسلاف پر اختلاف علمی کی جگہ تنگ نظری اور شخصی تنقید نے لے لی۔ پیر علائو الدین صدیقی اور اس خانوادے کی علمی و سماجی خدمات اگلے کالم پہ اٹھا رکھتے ہیں۔
آستانہ عالیہ سدرہ شریف کے خلیفہ پیر عبداللہ قادری السدروی کی دل آویز گفتگو نے سماں باندھا۔ شہدا کے مراتب و مناقب کے بیان سے اہل خانہ کے دلوں پر چھائے افسردگی کے بادل چھٹے تو تحریک منہاج القرآن کے راہنما معروف سکالر علامہ عبدالرشید تبسم اور سماجی شخصیت خرم شیراز کی جانب سے شہید میجر طلحہ منان کے لیے 50 لاکھ درود شریف کے تحفہ نے طبیعت سے ملال اور حزن
دور اور امیر دعوت اسلامی علامہ الیاس قادری کے دعائوں بھرے پیغام نے طبیعتوں کو شاد کیا۔ المصطفے ویلفیئر ٹرسٹ کے سرپرست اعلیٰ محترم محمد حنیف حاجی طیب پیرانہ سالی کے باوجود کراچی سے خصوصی طور پر تشریف لائے کہ شہید کے والد سے انکی پرانی شناسائی تھی انکی آمد کی اطلاع پا کر جامعہ مسجد ملک ریاض بحریہ ٹاون کے خطیب علامہ مفتی حبیب الرحمن بھی آن پہنچے اور محترم حنیف طیب کی شفقتیں سمیٹیں۔ تنظیم اہل سنت انٹرنیشنل کے چیئرمین و پرنسپل جامعہ رضویہ انوار العلوم پیر محمود احمد عباسی کی آمد تشفی کا سبب ٹھہری کہ ان کی ہدایت پر ضلع بھر اور بیرون ملک مساجد میں جامعہ کے فضلا بالخصوص صاحبزادہ منیر عالم، علامہ سید ضمیر حسین، علامہ ذوالفقار مدنی نے خطبات جمعہ میں پسر عبدالمنان اور دیگر شہدا کو خراج تحسین اور انکے لیے خصوصی دعائیں کیں۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم بھی آئے اور صوبائی وزیر ملک تیمور جو اول روز سے ہی راقم کے ساتھ رابطہ میں تھے اسمبلی سیشن کا اختتام ہوتے ہی دعا کے لیے پہنچے۔ ملک ریاض حسین کی ہدایت پر بحریہ مینجمنٹ کے میجر جنرل (ر) جاوید اور بریگیڈیر( ر)ضیا، کرنل (ر) فاروق شہید کے خاندان سے مستقلاً رابطہ میں رہے اور اپنی خدمات پیش کیں۔ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی دنیا بھر میں مثالی ہے۔ اسی روایت کو برقرار اور شہید وطن سے اظہار عقیدت کے لیے سینیٹر کامران مائیکل بھی اقلیتی برادری کے وفد کے ہمراہ پہنچے۔ رمرسکو گروپ کے چیئرمین رحیم الدین نعیم، ملک عمران اور سردار ریاض شریف شہید کو عقیدتوں کا خراج پیش کرنے آئے۔ دوران ٹریننگ اور مختلف یونٹس میں تعیناتی کے دوران میجر طلحہ کے رفقائے کار اور مادر وطن کے جانباز بیٹے نمناک آنکھوں سے بیتے دنوں کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ بحریہ سوسائٹی کے صدر اخلاص مسعود اور انکی ٹیم نے شہید کی بحریہ فیز 8 میں تدفین کو اعزاز قرار دیا۔ ملک بھر سے علما،بالخصوص علامہ غلام شبیر عطاری کی پر خلوص دعائیں قدم بقدم ساتھ رہیں، علاوہ ازیں تعلیمی، سماجی، عسکری شخصیات کی محبت پر فرداً فرداً اظہار تشکر ممکن نہ ہو سکا تو کالم کا سہارا لیا۔ ہدیہ تبریک بصد شکر تمام اہل محبت کے لیے۔