توشہ خانہ کیس اور نااہلی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
سیاسی اور عوامی حلقو ں میں آج کل توشہ خانہ کیس زیر بحث ہے۔آیا تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمرا ن خان توشہ خانہ سے تحفہ میں ملنے والی اشیاء کے کیس میں نااہل ہو سکیں گے یا نہیں۔حکومتی حلقوں میں عمران خان کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اور توشہ خانہ کیس کی الیکشن کمیشن میں سماعت سے خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں۔ عمران خان بہت جلد قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہو جائیں گے جس کے بعد مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے لیے آئندہ انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے لیے راستہ صاف ہوجائے گا۔
اس حقیقت میں دو آراء نہیں کہ عمران خان نے ملکی سیاست میں دو خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرکے ملک وقوم کو لوٹنے والوں کے خلاف عوام میںشعور بیدار کرکے ملک کی بہت بڑی خدمت کی ہے ورنہ اقتدار میں دو جماعتوں کی باریاں لگی ہوئیں تھی۔جے یو آئی کو دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کے اقتدار میں آنے سے اتحادی کے طور پر وزارتیں مل جاتی تھیں ۔2018 کے انتخابات میں اقتدار میںدو خاندانوں کی اجارہ داری کے خاتمے سے جے یو آئی کو پی ٹی آئی کے تین سالہ دور میں وازرتوں کاخسارہ برداشت کرنا پڑا۔پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے نے وقتی طور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے لیے اقتدار کی راہ ہموارکردی۔ تاہم سوال یہ ہے الیکشن کمیشن سپیکر کی طرف سے بھیجے جانے والے کیس کی سماعت کا اختیار رکھتا ہے اور اسے عمران خان کو نااہل کرنے کا اختیار حاصل ہے؟۔ حکومتی ریفرنس میں اہم نقطہ توشہ خانہ کی اشیاء نہیں بلکہ توشہ خانہ کی وہ چیزیںہیں جو عمران خان نے فروخت کرکے ان پیسوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا ۔الیکشن کمیشن کے روبروہ توشہ خانہ کی اشیاء نہیں بلکہ وہ پیسے ہیں جنہیں سابق وزیراعظم نے اپنے اثاثوں میں ڈکلیر نہیں کیا ۔
جہاں تک توشہ خانہ کی قانونی حیثیت کی بات ہے 1974 کابینہ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے تحت اس کا قیام عمل میں لایا گیاتھالاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس عباد الرحمن لودھی کے ایک اردو معاصر کو دیئے گئے انٹرویو کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت پارلیمنٹ کے کسی رکن کو اس وقت نااہل قرار دیا جا سکتا ہے جب اس کے خلاف قابل ادخال Admissible شہادت ہو۔اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے محمد صدیق بلوچ بنام جہانگیر خان ترین کے فیصلے کا حوالہ دیا جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال کا تحریر کردہ ہے، کی بنیاد پر کہاکہ کسی رکن پارلیمنٹ کو نااہل قرار دینے کے لیے اثباتی شہادت کا ہونا ضروری ہے جب کہ مفروضوں، قیاس آرائی یا استدلال پر مبنی شہادت کی بنیاد پر نااہلیت کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔انہوں نے اس سلسلے میں قانون شہادت 1984 کا حوالہ دیا کہ اس قانون کے آرٹیکل 2(سی)کے تحت شہادت یا تو ایسے بیان جس کی عدالت نے کسی گواہ کواپنے سامنے زیر تجویز معاملے میں بیان کرنے کی اجازت دی ہو تو وہ زبانی شہادت کہلائے گی یا ایسی دستاویز جو عدالت کے سامنے اس کے جائزے کے لیے پیش کی جائے وہ دستاویزی شہادت کہلائے گی لہٰذا جب تک کسی گواہ کا بیان یا کوئی دستاویزاس عدالتی عمل سے نہ گزرے اسے اثباتی شہادت کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔جہاں تک ریفرنس کے فیصلے کے لیے وقت مقررہ کی بات ہے وہ آئین کے آرٹیکل63(2)کے تحت سپیکر کے لیے
مقرر کیا گیا ہے اس کے سامنے جب ایسا سوال اٹھایا جائے اور وہ اس امر پر مطمئن ہو جائے کہ زیر ہدف رکن اسمبلی کے خلاف نااہلی کا کیس بنتا ہے تو وہ تیس یوم کے اندر الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا پابند ہے اسی آرٹیکل کے تحت اگر تیس یوم کے اندر سپیکر معاملہ الیکشن کمیشن کو ارسال نہیں کرتا توDeeming Clause کے تحت یہ تصور کیا جائے گاکہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیاہے۔لیکن آرٹیکل63 (3 ) کے تحت الیکشن کمیشن کو ایسا ریفرنس موصول ہونے کے بعد نوے دن کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ ریفرنس کاحتمی فیصلہ کر دے۔جج صاحب کی رائے میںیہ بات غلطی فہمی کا نتیجہ ہے کہ اس ریفرنس کے تحت آرٹیکل 62(۱)(ایف)کا اطلاق تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف ہو سکتاہے کیونکہ ان کی رائے میں آرٹیکل 62 الیکشن سے پہلے کسی شہری کی بطور رکن اسمبلی منتخب ہونے کی اہلیت واضح کرتا ہے جب کہ آرٹیکل 63 نااہلیت کی وجوہات متعین کرتا ہے۔
چونکہ موجودہ ریفرنس آرٹیکل 63 کے تحت وجود میں آیا ہے اس کے تحت سپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ارسال کیا ہے۔ان کی رائے میں 62(۱)(ایف)کے اطلاق کے لیے کسی رکن پارلیمنٹ کوبددیانت، بدچلن اور غیر متقی ثابت کرنے کے لیے اس نوعیت کاڈکلیریشن کسی عدالت جو قانون کے تحت وجودمیں آئی ہو،کی طرف سے جاری ہونا ایک بنیادی شرط ہے ۔ ان کے نزدیک اگرچہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ضرور ہے ،اس کے باوجود اسے قانون کے تحت قائم کی گئی عدالت کادرجہ حاصل نہیں ۔اہم بات یہ ہے سابق وزیراعظم کو کسی عدالت نے ابھی تک مبینہ طور پر بددیانت، بدچلن یا غیر متقی ثابت نہیں کیا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ضرور ہے مگر اس کی حیثیت عدالت کا درجہ تو نہیں رکھتی؟اس لیے عمران خان کو پہلے کسی عدالت سے بدیانت ثابت کرناضرور ی ہے ورنہ تو الیکشن کمیشن انہیں نااہل قرارنہیں دے سکتا۔نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نااہل قرار دیا تھا جس کے رکن موجودہ چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال بھی تھے۔اسی طرح جہانگیر ترین کو گذشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے نااہل قرار دیا تھا۔جہاں تک عمران خان کے توشہ خانہ کی اشیاء کو فروخت کرکے اس رقم کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی بات ہے عمران خان نے اپنے اثاثے 2018 میں ظاہر کئے تھے اور توشہ خانہ کی اشیاء کی خریداری تو بعد کی بات ہے لہٰذا وہ توشہ خانہ کی اشیاء کی فروخت سے وصول ہونے والی رقم کو کیسے ڈکلیر کر سکتے تھے؟