Editorial

پٹرول مہنگا ہونے پر اتحادیوں کے تحفظات

پٹرول کی قیمت میں اضافے پر نوازشریف کے بعد اتحادی بھی ناراض ہوگئے ہیں اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن سابق صدر آصف زرداری اور ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے بھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کر دیا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں پر مشاورت ضرور ہونی چاہیے۔ہم سب اس حکومت میں عوام کو ریلیف دینے آئے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ اور وزیراعظم کے ساتھ ہیں لیکن اس طرح کے فیصلوں پر مشاورت ضرور ہونی چاہیے۔ جلد وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کا عندیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران معاشی ٹیم کے بارے میں بھی بات ہوگی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ پٹرول قیمتوں میں اضافہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اضافہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اسی معاملے پر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت مزید مشکل فیصلے کرے گی، پٹرول قیمتوں میں اضافے پر زرداری سمیت سب کو اعتماد میں لوں گا، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی بلکہ کہا تھا کہ مزید ٹیکس اور لیوی عائد نہیں ہوں گے، اب اگلا ہدف مہنگائی کم کرنا ہے جس میں پٹرول اور ڈیزل نیچے لانا ہدف ہے، معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے، حکومت برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ کے لیے کوشاں ہے، ہم نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا ہے۔ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میں پٹرول کی قیمت میں اضافے کے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہوں،نواز شریف کی بات درست ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے سے عوام پر بوجھ پڑا ۔ مریم نواز نے جس میٹنگ کا ذکر کیا وہ حکومتی میٹنگ نہیں پارٹی کی نجی مجلس تھی ،حکومت نے آئی ایم ایف کو لکھ کر دیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی نہیں دیں گے ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ میرا نہیں وزیراعظم شہباز شریف کا ہوتا ہے، صرف مجھ پر تنقید کرنا حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ بلاشبہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے موجودہ اتحادی حکومت ہر ممکن اقدامات کررہی ہے اور اِن اقدامات کے نتیجے میں پہلے سے مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار عوام پہلے سے زیادہ بے حال ہوگئے ہیں اور نئی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں بلاشبہ ملک ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے لیکن دیکھا جانا چاہیے کہ ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے سارا معاشی ملبہ اور ماضی کی ہر غلطی کا بوجھ عوام پر لاد دیاگیا ہے اور مداوے کے لیے مخصوص گھرانوں کو دو ہزار روپے بھی دیئے ہیں کہ اِس سے پٹرول خرید لیں۔ سابقہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دور کے برعکس موجودہ اتحادی حکومت کے دور میں اشیائے خورونوش سمیت کم و بیش عام استعمال کی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ اضافہ پچپن فیصد سے زائد ہے اور یہ عام پاکستانی کی آمدن یا یومیہ دیہاڑی سے قریباً دگنا ہے مگر حکمران جماعت اور اُن کی معاشی ٹیم بالخصوص وفاقی وزیر خزانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا ہے بلکہ ایک موقع پر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ معیشت بچانے کے لیے آئے ہیں مہنگائی کم کرنے کے لیے نہیں۔ پس اُن کا یہ دعویٰ کہ وہ مہنگائی کم کرنے نہیں آئے، حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی سیاست کے لیے انتہائی خطرناک اور عوام کے لیے بھی چونکا دینے والا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر گرانی کا طوفان آیا اور ہم بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے لیکن پھر بھی مہنگائی کی صورتحال یہ نہ تھی اور اِس دوران اتحادی جماعتوں کی قیادت مسلسل دعویدار رہی بلکہ پی ڈی ایم کی تحریک کی بنیاد ہی حکومت کو ہٹاکر عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے چھٹکارا دلانا تھی مگر آج دیکھیں تو زمینی حقائق اُن دعوئوں کے بالکل برعکس ہیں اور اب عام پاکستانی کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ دو وقت کا کھانا کھاسکیں مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ گاڑی والا موٹر سائیکل پر آچکا ہے اور موٹر سائیکل والے سائیکل پر ۔ معاشی اصلاحات کے امتحان میں امیر اور مالدار طبقے کی بجائے سفید پوش اور غربت کی لکیر کے قریب پاکستانیوں کو بٹھادیاگیا ہے۔ ہم متفق ہیں کہ وطن عزیز شدید معاشی بحران سے دوچار ہے اور اِس سے نکلنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے مگر اِس اجتماعی کوشش میں صرف سفید پوش اور غربت کی لیکر والے پاکستانی ہی قربانی کا بکرا بنے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت پہلی بار برسر اقتدار آئی انہیں نظام حکومت چلانے کا قطعی تجربہ نہ تھا مگر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ نون تو تین تین بار اقتدار میں آچکی ہیں اور ان کے پاس تجربہ کار معاشی ٹیم بھی ہے تو پھر دیکھا جانا چاہیے کہ عام پاکستانی پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والی مہنگائی کو کیوں کم قرار دے رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے کہیں اُن کی اپنی سیاسی ساکھ متاثر نہ ہو اور جب انہیں عوام کے پاس جانا پڑے تو انہیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عام انتخابات میں کم ہی وقت باقی رہ گیا ہے اِس عرصے کے دوران معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ عام آدمی کا معیار زندگی بھی بدلنا پڑے گا وگرنہ اتحادی جماعتوں کو عام انتخابات میں شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button