Editorial

ضمنی انتخابات:تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں

صوبائی اسمبلی پنجاب کے بیس حلقوں میں آج ضمنی انتخابات ہورہے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ نون اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے درمیان بظاہر ون ٹو ون مقابلہ ہے لیکن جماعت اسلامی پاکستان اور تحریک لبیک پاکستان سمیت آزاد امیدوار بھی آج انتخابی میدان میں حصہ رہے ہیں اور بیس حلقوں کے 45لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے انتظامات کیے ہیں تو دوسری طرف امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی غیر معمولی تعداد میں نفری اور رینجرز کی بھی خدمات حاصل کی ہیں جبکہ پاک فوج کے دستے بھی کسی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں گے۔
آج حکمران جماعت یا اپوزیشن جو بھی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی وہ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں اُتنی ہی زیادہ مضبوط ہوگی اور بیس جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے ہونے والے انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ چند ماہ قبل تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں مرکز میں تبدیلی آئی، اس کے بعد پنجاب کے ایوان میں بھی اپوزیشن نے پانسہ پلٹا جس کے نتیجے اُس وقت کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے پچیس اراکین صوبائی اسمبلی کام آئے، ان میں سے پانچ اراکین اسمبلی مخصوص نشستوں پر جبکہ بیس اپنے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوکر ایوان میں پہنچے تھے لیکن انہوں نے حزب اختلاف کا ساتھ دیکر اپنی حزب اقتدار جماعت تحریک انصاف کو حزب اختلاف میں لابٹھایا لیکن ایک عدالتی فیصلے کے بعد خود بھی نااہل قرارپائے اور آج ان کے حلقوں میں ضمنی انتخاب ہورہا ہے۔
ملکی سیاست میں عام تاثر یہی ہے کہ مرکز میں موجود حکمران جماعت تبھی مضبوط ہوتی ہے جب اُس کی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت ہوتی ہے، اسی لیے ہمیشہ مرکز میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت نے پنجاب میں بھی حکومت بنانے کی کوشش کی۔ تحریک انصاف مرکز میں کمزور پڑی تو پنجاب میں ایسی ہی صورتحال کا فائدہ متحدہ اپوزیشن نے اٹھایا اور یہاں بھی سیاسی طریقے سے تبدیلی کی مگر متعدد وجوہ کی بنا پر دو روز بعد بیس جولائی کو ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہورہا ہے ،
حزب اختلاف پاکستان تحریک انصاف کو چونکہ پانچ مخصوص نشستوں کی صورت میں خاصا حوصلہ ملا ہے اس لیے آج کا ضمنی انتخاب پنجاب کی سیاست کے لیے ہر لحاظ سے اہم ہے اور بلاشبہ دونوں جماعتوں کی قیادت نے اپنے اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلائی ہے۔ 20حلقوں کے 45لاکھ کے قریب ووٹرز آج حق رائے دہی کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کریں گے جو 20جولائی کو پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے ہونے والے انتخابات
میں اہم ثابت ہوں گے اِس لیے دونوں جانب سے آج زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جائے گی،
لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے آج ہونے والے ضمنی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد سے ملکی سیاست میں جس قدر گرما گرمی دیکھی اور محسوس کی جارہی ہے اسے قطعی طور پر جمہوریت کا حسن قرار نہیں دیا جاسکتا،
جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ ووٹر اپنا ووٹ پرامن ماحول میں آسانی سے استعمال کریں اور جس کو اپنا بہتر نمائندہ تصور کریں اس کے حق میں ووٹ دیں اور جس پر زیادہ ووٹرز اپنے ووٹ کے ذریعے اعتماد کریں الیکشن کمیشن اُسے منتخب نمائندہ قرار دے دے مگر ہماری ملکی سیاست میں کئی سال سے انتخابات انتہائی تنائو بھری صورتحال میں رونما ہورہے ہیں، سیاست جماعتوں کی قیادت کی ایک دوسرے کے کاموں کے خلاف تنقید اور اپنا منشور ایک طرف رکھ دیاگیا ہے اور اب ذاتیات پر حملوں کو انتخابی مہم سمجھا جارہا ہے، سیاسی قیادت کی گرما گرم تنقید ورکرز کو اشتعال دلانے کے سوا کسی کام نہیں آرہی اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی انتخاب ہو وہ لڑائی جھگڑے، مار کٹائی اور جانی نقصان کے بغیر نہیں ہوتا، قریباً دو سال قبل ڈسکہ کے انتخابی حلقہ این اے 75میں ضمنی انتخاب کے دوران دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان دن بھر تنائو کا ماحول رہا، کئی مقامات پر مارکٹائی اورخون خرابہ بھی ہوا اور فائرنگ کے واقعات میں کئی سیاسی ورکر جان سے گئے ، کچھ زخمی بھی ہوئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام سکیورٹی اداروں کی خدمات حاصل کی تھیں کہ الیکشن پرامن ماحول میں منعقد ہوں لیکن جب دست و گریباں ہونا ہو تو اس کے لیے وقت اور جگہ کے تعین کی ضرورت نہیں رہتی۔ این اے 75کے انتخاب میں عام سیاسی کارکن مارے گئے، درجنوں زخمی ہوئے اور پورے ملک نے ٹی وی سکرین کے ذریعے عدم برداشت کے مظاہرے دیکھے اسی سیاسی عدم برداشت کے رویے کے ساتھ آج پھر ضمنی انتخابات ہورہے ہیں، چونکہ انتخابی مہم کے دوران جو کچھ کہا اور سناگیا ہے وہ ہم ان سطورمیں بیان نہیں کرسکتے اِس لیے خدشہ یہی ہے کہ سیاسی قائدین ہی نہیں بلکہ سیاسی ورکرز کا پارہ آج بھی آسمان کو چھوتا نظر آئے گا۔
سیاست میں عدم برداشت کا یہ چلن اتنا عام ہوچکا ہے کہ عام زندگی میں سیاسی اور نظریاتی مخالفت نفرت پھیلاتی محسوس ہوتی ہے، جس طرح سیاسی قائدین اپنے منشور پر بات کرنے کی بجائے کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں اسی طرح ورکرز بھی گفتگو کے دوران صبروضبط کا دامن چھوڑ کر طیش و اشتعال کا مظاہرہ کرتے نظرآتے ہیں، اسی لیے صرف متذکرہ حلقوں میں ہی نہیں بلکہ ہر طرف طوفانی کیفیت دکھائی دے ری ہے کیوں کہ اب ایک دوسرے پر الزام تراشی کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے اور شاید اسی کو سیاست سمجھاجارہا ہے مگر جو کچھ کہا اور سنا جارہا ہے یہ قطعی طور پر سیاست نہیں بلکہ سیاست اور ریاست دونوں کے لیے خطرناک رحجان ہے مگر کیا کہاجائے کہ سیاسی قیادت آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کسی ادارے کو معاف
نہیں کرتی نہ ہی اس کے قومی سلامتی پر اثرات کا سوچتی ہے، لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے کہ آج پرامن اور آزادانہ ماحول میں انتخابات کا انعقاد کیاجائے اور جو بھی نتائج سامنے آئیں انہیں صدق دل سے تسلیم کرکے آئندہ بہتر نتائج کے لیے کوشش کی جائے نہ کہ، نتائج کو مسترد کرکے سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دیا جائے، ملک و قوم اس وقت مزید بے چینی اور عدم استحکام کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button