Columnعبدالرشید مرزا

سفر حج، ایک خواب بقیہ حصہ .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

شیخ محترم!ہمیں بھی اپنے قافلے میں شامل کر لیجیے ، ہم آپؓ کی رفاقت میں حج کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عبداللہؓ فرماتے :اپنا اپنا زاد راہ لائو۔ وہ سب راستے کا خرچ لاتے تو وہ ان سے یہ رقم لے کر ایک صندوق میں بند کرکے رکھ لیتے اور صندوق کو تالا لگا دیتے۔ اب حضرت عبد اللہؓ تمام ساتھیوں اور اہل قافلہ کو لے کرمرو سے بغداد کی طرف چلتے اور تمام ساتھیوں پر اپنی جیب سے خرچ کرنا شروع کر دیتے۔

راستے بھر انہیں بہترین اور عمدہ کھانے کھلاتے۔ بغداد پہنچ کر سب کے لیے بہترین کپڑے خریدتے اور انہیں خوبصورت لباسوں میں ملبوس کرتے۔ اس طرح یہ پورا گروپ نہایت شاندار ہیئت کے ساتھ بغداد سے مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوتا۔ مدینہ پہنچ کر تما م اہل قافلہ سے پوچھتے: آپ کے گھر والوں نے سفر پر روانہ ہوتے وقت مدینہ طیبہ سے کیا خرید کر لانے کو کہا تھا؟ سب لوگ اپنے اپنے گھر والوں کی فرمائش بتاتے۔ وہ ہر ایک کے لیے اس کی طلب کے مطابق اشیاء خرید لیتے۔ پھر سارے قافلے کو لے کر مکہ مکرمہ پہنچتے اور جب وہ حج کرکے فارغ ہو جاتے تو تمام ساتھیوں سے پوچھتے: آپ کے گھر والوں نے سفر پر روانہ ہوتے وقت مکہ مکرمہ کی اشیاء میں سے کیا کچھ خرید کر لانے کا کہا تھا؟

ہر کوئی اپنے اپنے گھر والوں کی ضروریات بتاتا۔ وہ ہر ایک کو اس کی پسند کی چیز لے کر دے دیتے۔پھر ان سب کو لے کر مکہ مکرمہ سے نکلتے اور واپسی کا سفر مرو کی طرف شروع ہو جاتا۔ راستے بھر ان پر اپنی جیب سے خرچ کرتے یہاں تک سب لوگ مرو پہنچ جاتے۔ عبد اللہ ابن المبارک ان سب کے گھروں میں سفیدی کروا دیتے اور ان کے دروازے بھی رنگین کروا دیتے۔ 3 دن گزرتے تو ان تمام ساتھیوں کو ایک شاندار دعوت پر بلاتے۔ انہیں بہترین کھانا کھلاتے ،پھر ان میں ہر ایک کو خوبصورت کپڑوں کاایک جوڑا عنایت فرماتے۔ پھر وہ صندوق منگواتے جس میں ان کی رقوم رکھی ہوئی ہوتیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہر شخص کی رقم ایک تھیلی میں بند ہوتی جس پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا۔ ہر شخص کو اس کی پوری رقم واپس مل جاتی کیونکہ حج کا سارا خرچ حضرت عبد اللہؓ اپنی جیب سے کرتے۔ آپ کی فیاضی اور کرم کے کیا کہنے ! تاریخ اسلامی نے ایسی ایسی شخصیات بھی دیکھی ہیں۔ یہ مبارک شخصیت مبارک ماہ میں شہر مکہ میں پانی زم زم کی طرف جاتے تو اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر ایک دعا کرتے۔ عرض کرتے: میرے رب!تیرے رسول کریمﷺ نے فرمایا تھا: آب زم زم کو جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ مقصد اللہ تعالیٰ پورا کر دیتا ہے۔

اللہ!میں یہ پانی اس نیت سے پی رہا ہوں کہ قیامت کے دن میری پیاس کو اس پانی کی برکت سے بجھا دینا۔ مطرف بن عبد اللہ الشخیر اور بکر المزنی میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں دست سوال دراز کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک نے اس طرح دعا کی: یا اللہ! میرے گناہوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ان سب لوگوں کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو ناکام و نامراد واپس نہ لوٹانا۔ دوسرے نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس طرح درخواست پیش کی۔ یہ میدان کتنا عظمت والا اور شان والا ہے اگر میرے جیسا نکما انسان اس مجمع میں نہ ہوتا تو شاید سب کی دعائیں قبول کر لی جاتیں، وہ لوگ کس قدر تواضع اور انکساری کے پیکر ہوا کرتے تھے اور بے شمار نیکیاں کرنے کے باوجود وہ کس قدر محتاط رہتے تھے۔

حضرت فضیل بن عیاض ؓمیدان عرفات میں کسی گمشدہ بچے کی ماں کی طرح پر سوز آہ و بکا کررہے تھے۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب ہوا تو انہوں نے اپنی داڑھی پکڑ لی اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہاکہ ہائے میری بدبختی اگر مجھے معافی نہ ملی۔ حضرت مسروق رحمہ اللہ جب حج کے لیے جاتے تو بہت کثرت سے عبادت کرتے تھے۔ حتی کہ ان کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہاکہ مسروق جب بھی حج کرتے ہیں تو ایام حج کی ہر رات نماز پڑھنے میں گزار دیتے ہیں۔ علی بن فضیل رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ ایک مرتبہ میں حج کے لیے گیا۔ جب بیت اللہ شریف میں داخل ہوا اور طواف شروع کیا تو دیکھا کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کعبہ کے پاس سجدہ میں پڑے ہوئے تھے۔ میں ایک طواف ختم کرکے اسی جگہ پہنچا تو سفیان اسی طرح سجدے میں تھے۔ انہوں نے دوسرا ، تیسرا حتیٰ کہ ساتوں طواف مکمل کر لیے مگر سفیان اسی طرح سجدہ میں پڑے رہے، انہوں نے سر نہیں اٹھایا۔ وہ لوگ اتنے اتنے لمبے سجدے اس لیے کرتے تھے کہ اس عظمت والے گھر میں رحمت الٰہی ان کی طرف متوجہ ہوجائے اور ان کی مغفرت کا سامان ہو جائے۔ اسود بن یزید نخغی نے 80 بار حج اور عمرہ کی ادائیگی کی۔ ایک سفر میں علقمہ بن قیس بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اسود حج کے ایام میں کثرت سے عبادت کیا کرتے تھے۔

ایک سخت گرم دن میں انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ اچانک گرمی کی شدت کے باعث ان کی طبیعت بگڑ گئی اور چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔علقمہ نے ان کی ران پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا: اسود! آخر تم کس لیے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہے ہو اور جسم کو عذاب دے رہے ہو؟ اسود کہنے لگے: ابو شبل! میرے بھائی! میں اس جسم کے لیے اس دن کی راحت کا انتظام کررہا ہوں جس دن کہیں کوئی سایہ نہیں ہوگا اور سورج سر پر ہوگا اور زمین تپ کر کوئلہ ہو رہی ہوگی۔اس دن کا معاملہ بہت سخت ہے، بہت ہی سخت ہے۔ محمد بن واسع رحمہ اللہ حج کے سفر پر جارہے تھے۔ وہ اونٹ پر سواری کے دوران محمل میں نماز میں مسلسل مشغول رہتے اور حدی خواں سے کہتے: تم بلند آواز سے حدی کے اشعار پڑھتے رہنا تاکہ میری قرأ ت کی آواز تمہاری آواز میں دب جائے۔

اس طرح کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں سواری پر بیٹھا نماز پڑھ رہا ہوں۔ مغیرہ بن حکیم صنعانی یمن سے پیدل چل کر حج کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر کیا کرتے تھے۔ آپ ہر رات کو 10 پارے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ وہ رات کو کھڑے ہوتے اور نماز کی حالت ہی میں اپنی منزل مکمل کیا کرتے تھے۔وہ سوچتے قرآن تو پڑھنا ہی ہے کیوں نہ اسے نما ز کی حالت میں پڑھا جائے تاکہ اجروثواب اور زیادہ بڑھ جائے۔ مالک بن انس رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ سیدنا جعفر صادق رحمہ اللہ کے ہمراہ حج کا سفر کیا۔ سیدنا جعفر جب تلبیہ کہنے کا ارادہ کرتے تو ان پر شدید خوف و رعب طاری ہوجاتا اور ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ امام مالک پوچھتے: آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے ؟ وہ فرماتے: مجھے ڈر ہے کہ جب میں کہوں گا:

یا اللہ!میں حاضر ہوں تو کہیں ادھر سے یہ آواز نہ آ جائے: جعفر! تمہاری حاضری قبول نہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیںکہ میں نے ایک سال ارادہ کیا کہ مشہور جلیل القدر صحابی سیدنا عبد اللہ بن عمر کے ساتھ حج کو جاتا ہوں تاکہ راستے میں ان کی خدمت کر سکوں مگر جب میں ان کے ساتھ روانہ ہوا تو بجائے اس کے کہ میں ان کی خدمت کرتا الٹا وہ میری خدمت کرنے لگ گئے اور سارا راستہ میرا اور ان کا یہی حال رہا۔

اللہ تعالیٰ حج کے بعد گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور انسان ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی ابھی آیا ہو اس لیے ہمیں اپنا حج، عاشقوں کی حج کی طرح ادا کرنا چاہیے تاکہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے اور ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔

جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
دار و سکندر سے وہ مردِ فقیرِ اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الہٰی

جواب دیں

Back to top button