Editorial

لوڈ شیڈنگ پر وزیراعظم پاکستان کی برہمی

وزیراعظم شہبازشریف نےکہا ہے کہ بجلی نہیں ہوتی توعوام بددعائیں دیتے ہیں، صنعتوں کو گیس نہ ملے توبرآمدات کو دھچکا لگتا ہے، پچھلی حکومت سستی گیس خرید لیتی تو اتنی بری معاشی صورتحال نہ ہوتی،لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے اجلاس میں وزیراعظم پاکستان نے ملک میںلوڈشیڈنگ کم نہ ہونے پر برہمی کااظہارکیا لیکن اپنے ٹویٹ کے ذریعے خوشخبری بھی دی کہ 720 میگاواٹ کےکروٹ پن بجلی منصوبےنےکام شروع کردیاہے۔وزیراعظم شہبازشریف کئی مواقعوں پر کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت بجلی اور گیس بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ابتک جتنی بھی کوشش کررہی ہے اور کرچکی ہے ان کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے کیونکہ ابتک سامنے آنے والی حقائق اور وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت بجلی بحران کے خاتمے کے لیے ہونے والے اجلاسوں میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ پچھلی حکومت نے بجلی کے پلانٹس کی وقت پر مرمت نہیں کرائی، وہ بند پڑے تھے،
ان پلانٹس کی چند مہینوں میں موجودہ حکومت نے مرمت کرا ئی اور انہیں چالو کیا لیکن اس دوران ایندھن کا بہت بڑا چیلنج سامنے آگیاجس کی ایک سے زائد وجوہات سب کے سامنے ہیں۔حالیہ دنوں میں عالمی منڈیوں میں تیل اور گیس کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں اور خام تیل 118 ڈالر فی بیرل تک چلا گیا، اسی طریقے سے گیس بھی بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہے ، اس لیے جب مہنگے تیل اور گیس پر بجلی بنائی جائے گی تو تیل اور گیس کی وجہ سے قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوگا حالانکہ موجودہ معاشی بحران میں اس کی ایک ایک پائی کی اشد ضرورت ہے اور ہم دوست ممالک کے سامنے ہاتھ ہی اسی لیے پھیلارہے ہیں کیونکہ ہمارے پلے کچھ بھی نہیں۔ پھر روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا کررہی ہے جن میں گیس اور پٹرول بحران سب سے زیادہ اہم ہے اور روس یوکرین کے مسئلے کی وجہ سے بعض ترقی یافتہ ممالک گیس خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے بیچنے والے ممالک یا کمپنیوں نے بولیاں ہی طلب نہیں کیں اور ہم لاعلمی میں رہ گئے اور اب اسی لاعلمی کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان پہنچاہے اسی لیے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ گیس کا ٹینڈر آیا تو وہ 40 ڈالر فی یونٹ پر تھا تو ہم نے سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا کہ اتنی مہنگی گیس نہ لی جائے ورنہ ہمیں بہت مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی اور یقیناً یہی مہنگی بجلی عوام کو بھی مہنگی ملتی اور پھر اس کے گھریلو اور کمرشل صارفین پر منفی اثرات مرتب ہوتے ،
انڈسٹری کو نقصان پہنچتاجو ناقابل برداشت ہوتا، لیکن پچھلی حکومت کو سستی گیس خریدنے کا موقع ملا مگرانہوں نے اپنی غفلت کے سبب 3 یا 4 ڈالر پر خریدنے کے سودے نہیں کیے، اسی طریقے سے گیس کے طویل المدتی سودے 5 یا 6 ڈالر پر ہو سکتے تھے لیکن وہ بھی نہیں کیے، اگر یہ سودے کر لیے جاتے تو معیشت کی اتنی بری صورتحال پیدا نہ ہوتی جتنی اب ہے اور پوری قوم بجلی اور گیس بحران کا سامنا کررہی ہے اور حکومت اعتراف کرتی ہے کہ اُس کی خاطر خواہ کوششوں کے نتائج برآمد نہیں ہورہے اور بلاشبہ ہونا ممکن بھی نہیں کیونکہ پہلے پہل تو بجلی کے بند پلانٹس کی مرمت کرواکے انہیں چالو کرانا حل سمجھا جارہا تھا اور موجودہ حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر ان کی مرمت بھی کروالی اور  اس دوران وزیراعظم پاکستان پاور ڈویژن کے حکام کے ساتھ متعدد اجلاس کیے اور پلانٹس کے معاملے پر مکمل آگاہی لیتے رہے تاکہ افسران کو بھی احساس ہو کہ وزیراعظم پاکستان بجلی بحران کے فوری خاتمے کے لیے ازحد سنجیدہ ہیں اس لیے ترجیحی بنیادوں پر ان پاور پلانٹس کے کام کو نمٹانا ہے مگر جب پلانٹس مرمت ہوکر چلنے کے قابل ہوئے تو اِن کو ایندھن کی فراہمی کا مسئلہ آڑے آگیا جو یقیناً پچھلی حکومت کے دور میں پیدا ہوا تھا کیونکہ تبھی روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی جاری تھی اور دور اندیشی والے ممالک نے تبھی مستقبل کے خطرات کو بھانپتے ہوئے اپنی ضروریات کو مدنظر رکھ کر پیش بندی کرلی تھی یہی بات وزیراعظم شہبازشریف نے بھی کہی کہ روس یوکرین کے مسئلے کی وجہ سے بعض ترقی یافتہ ممالک گیس خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے بیچنے والے ممالک یا کمپنیوں نے بولیاں ہی طلب نہیں کیں یعنی تیل و گیس کی پیداوار والے ممالک کو پیشکش کرنے کی نوبت ہی نہیں آرہی اور ممالک دھڑا دھڑ اُن سے سودے کررہے ہیں اور بدقسمتی سے ہم اُن ممالک میں شامل نہیں ،
لہٰذا ہمیں موقعے کا انتظار کرنا پڑے گا جب ہم بولی میں حصہ لیں گے ۔ وزیراعظم پاکستان کی زیرصدارت زیر بحث اجلاس میں سامنے آیا کہ پچھلی حکومت نے چین کا ریوولونگ اکاؤنٹ وعدے کے باوجود نہیں کھولا جس پر چین نے شدید اعتراض کیا تھا، اسی طریقے سے حویلی بہادر شاہ میں جرمن کمپنی سیمنز نے نون لیگ کے دور حکومت میں ساڑھے 1200 میگاواٹ کا پاور پلانٹ لگایااور پہلی ٹربائن 2018 میں سائٹ پر پہنچ گئی تھی اور باقی کاموں کی تکمیل کے بعد اسے ڈھائی سال پہلے چل جانا چاہیے تھا لیکن وہ ٹربائن بھی بند پڑی ہے، اسی لیے وزیراعظم شہبازشریف کہنے پر مجبور ہوئے کہ پچھلی حکومت کو توفیق ہی نہیں ہوئی، قوم کے 30 سے 40 ارب روپے ضائع ہو چکے ہیں جبکہ سی پیک کے پن بجلی کے منصوبوں میں بھی پچھلی حکومت کے دور میں تاخیر کی گئی تاہم ہماری کوشش ہے کہ جن پلانٹس میں تاخیر ہوئی ہے ان کو جلد سے جلد چلائیں، ہمیں حکومت سنبھالتے ہی یہ حقیقی چیلنجز ملے لیکن ہم ضرور ان چیلنجز کو حل کریں گے اور اس بحران سے پاکستان کے عوام کو نکالیں گے، وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ان سطور میں بتانا ضروری ہے کہ 720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی منصوبے نے کام شروع کر دیا ہے حالانکہ گزشتہ حکومت کے پونے چار سال میں اس منصوبے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی تھی لیکن یہ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والا پن بجلی کا پہلا منصوبہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button