ColumnImtiaz Ahmad Shad

ایسا ظلم مت کریں! .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
جب ہم دوسروں سے بہت سی توقعات وابستہ کرکے  لیتے اور فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل فقط اسی کے پاس ہے تو ہم خود ہی تباہی اور ناکامی کی بنیاد رکھ دیتے ہیںکیونکہ جب وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو ہم شدید قسم کے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں اور خود کو ایسی اذیت میں ڈال دیتے ہیںکہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے دل و دماغ سے الجھنیں اور ڈپریشن ختم نہیں ہوتا۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا ہے اور اپنی اس کیفیت کا ذمہ دار بھی وہ خود ہے۔ہمارے اندر دوسروں پر انحصار کرنے کی عادت بحیثیت قوم بدرجہ اتم ہے اور ہماری فطرت ثانیہ ہے۔شاید کرہ ارض پر ہم واحد انسانی گروہ ہیںجو ایک ہی وقت میں قاتل اور مقتول دونوں کے لیے نفرت اور ہمدردی کے ایسے جذبات رکھتے ہیں کہ کرہ ارض پر بسنے والی دیگر اقوام ہمارے اس رویے کو دیکھ کر چکرا جاتی ہیں۔کل تک جو چور ڈاکو تھے،جن پر الزامات تھے کہ انہوں نے ملک کو کھوکھلا کردیا آج وہ مسند پر ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز بھی کیا کمال ہیں۔دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کا کمال ہنر جانتے ہیں۔ جس شخص پر الزام تھا کہ معیشت کا ستیا ناس کر گیا،جس کی جائیدادیں یہ کہہ کر نیلام کی گئیں کہ سب مال لوٹ مار کا ہے ،آج اسی عطار سے دوا مانگی جارہی ہے۔کہا جارہا ہے کہ اسحاق ڈار کی واپسی ملکی معیشت کے لیے لازم ہے۔ تھوک کر چاٹنا ،معلوم نہیں یہ کس قوم کا ضرب المثل ہے مگر اس محاورے کا اطلاق میری قوم اور اس کے مزاج پر پورا ہوتا ہے۔
ویسے تو ہم پیدائشی طور پر معاشی مسائل سے دوچار ہیں کیونکہ یہ ہمیں ہمارے بزرگوں سے ورثے میں ملے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بار ہمیں یہی بتایا گیا کہ یہ سب پچھلوں کا کیا دھرا ہے۔چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ سب کارستانیاں پچھلوں کی تھیں مگر وہ پچھلے تھے کون؟ کیا وہ پچھلے جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں یا انہیں نشان عبرت بناتے ہوئے چوکوں چوراہوں پر ٹانگ دیا گیا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر گذشتہ ادوار پر مٹی ڈالیں موجودہ تین ماہ کی کارکردگی پر بات کرتے ہیں۔گزشتہ تین ماہ سے ملک میں جس تیز رفتاری سے مہنگائی، بے روزگاری بڑھی ہے، اس رفتار کی مثال پوری ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص پریشان ہے۔
پٹرول ،ڈیزل،زرعی آلات ،بجلی غرض ہر وہ چیز جو ریاست کی ترقی اور عوامی خوشحالی کا سبب بن سکتی ہے اس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،اور حکمران مزید قربانی کے طلب کر رہے ہیں۔دراصل موجودہ سیٹ اپ کے لیے اقتدار کا حصول محض پاور کو انجوائے کرنا اور قومی اداروں کو کمزور کرکے اپنی کرپشن چھپانا ہے۔ یہی وہ پچھلے ہیں جو دہائیوں سے ملک میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے احتساب اور نظام عدل پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ جاگیر داروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے دل کھول کر ملک کولوٹاہے لیکن کوئی ان کا احتساب کرنے والا نہیں ہے۔ ہم ان پر خودداری کی توقعات لگائے بیٹھے ہیںجن کی غلامی کا یہ عالم ہے کہ قوم کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات حل ہونے اور ان کی تمام شرائط ماننے کی خوشخبریاںسنائی جارہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بد ترین طرز حکمرانی کی وجہ سے آج پاکستان کا گردشی قرضہ 25 کھرب روپے سے تجاوز کرگیا ہے جبکہ مختلف ادارے بجلی کے بلوں میں 650ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ بجلی کی پیداوار میں 11.6فیصد تک اضافے کے باوجود قوم کو بد ترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔
موجودہ حکمران غیبی مدد آنے سے چند ماہ قبل خود مہنگائی، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی غلامی کے خلاف بھر پور احتجاج کررہے تھے۔ اب اقتدار میں آکر احتجاج کرنے والوں کو غدار قرار دے رہے ہیں۔اسحاق ڈار کو بلوائیں یا کسی اور کوامر واقعہ یہ ہے کہ ملک کا معاشی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔اس مردے گھوڑے میں جان ڈال کر ریس کے میدان میں اترنا کم عقلی ہی نہیں بدترین بے وقوفی بھی ہے۔بنگلہ دیشی ٹکا بھی پاکستانی روپے سے زیادہ مضبوط ہے۔ پاکستانی روپے کی اتنی بے قدری کبھی نہیں ہوئی جتنی گزشتہ عرصے میں ہوئی ہے۔لیپ ٹاپ بانٹ کرتعلیم عام کرنے والوں کو شاید معلوم ہی نہیں کہ صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تیس ہزار سے زائد بچے اسکول چھوڑ چکے ہیں۔ اگر مہنگائی کا یہی عالم رہا اور کتابوں، سٹیشنری کو سستا نہ کیا گیا تو اگست تک پورے ملک میں مزید ایک ملین بچے سکول چھوڑ دیںگے۔ آپ کے دیئے لیپ ٹاپ پر پھر وہ بچے ٹک ٹاک ہی بنائیں گے۔جس قوم سے آپ قربانی مانگ رہے ہیں ،شاید آپ کو معلوم نہیں اس بیچاری غریب عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل سے مشکل تر ہوچکا ہے۔بہر حال آج حالات جو بھی ہیں سب بے جا توقعات کا نتیجہ ہے۔عوام بھی خود کچھ کرنے کے بجائے حکمرانوں پر توقعات لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور حکمران ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے خودداری کے ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے اغیار کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ترجیحی دیتے ہیں۔یہی وہ توقعات ہیں جن کے پورا نہ ہونے پرعوام ڈپریشن کا شکار ہو چکی۔عید مسلمانوں کے لیے خوشی کا تہوار ہے ،
مگر افسوس کہ موجودہ حالات میں اکثریت عوام جیسے جیسے عید کے دن قریب آتے جارہے ہیں پریشان ہوتے جارہے ہیں۔اکثریت عوام کی آمدن اتنی ہے کہ وہ بجلی کے بل ،سفر کے لیے پٹرول اور مکان کا کرایہ ادا کرے تو باقی ماندہ سے بکرا تو دور مرغی کی بھی قربانی دینے سے قاصر ہے۔ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اگر قربانی پر اسے گوشت میسر آبھی جائے تو وہ بیچارہ پکائے گا کیسے؟ گھی اور ہانڈی میں استعمال ہونے والے دیگر لوازمات کہاں سے خریدے؟ بد سے بدترین کا یہ جو سفر ہے اس میں مقتدر حلقوں سے لے کر انصاف کے اداروں تک نے جانے انجانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔خوف خدا، خلق خداکا خیال رکھنا ،احساس اور اسلامی اصولوں کی پاسداری ایسے بڑے بڑے خیالات کی تکمیل کسی صورت آئی ایم ایف سے قرض اور دنیا سے بھیک مانگ کر نہیں کی جا سکتی۔
اس کے لیے فیصلہ کن قوتوں کو فیصلہ کرنا ہو گاکہ بطور قوم ہم نے کس راستے کا انتخاب کرنا ہے؟ آدھا تیتر آدھا بٹیر سوچ نے آج اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ہمارا بہترین دوست چین ہمیں اپنی میزبانی میں ہونے والے خطے کے اہم ترین فیصلوں میں نظر انداز کرنے لگا ہے۔ بطور ریاست اقوام عالم میں ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری تو ہم جھیل ہی لیں گے طعنہ زنی اور بے عزتی ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ ذاتی مفادات سے نکل کر ریاست کے مفادات کی خاطر اکھٹا ہونا پڑے گا۔ بند کمروں میں ہونے والی باتوں کو بازاروں اور چوراہوں کی زینت مت بنائیں ورنہ دنیا آپ پر کسی صورت اعتماد نہیں کرے گی۔ایسا ظلم مت کریں ،جن افراد کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار گردانتے ہوئے ہم نے اقوام عالم کو پیغام بھیجا کہ ان کی وجہ سے آج ہم ان حالات تک پہنچے ہیں،انہیں ملک کے خزانے پر مت بٹھائیں ۔کل کو دنیا آپ کے کسی موقف پر یقین نہیں کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button