Editorial

جولائی میں لوڈ شیڈنگ بڑھنے کا عندیہ

وزیراعظم میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے جلد معاہدہ ہو جائے گا، ممکن ہے جولائی میں لوڈشیڈنگ بڑھے۔ شمسی توانائی کے حوالے سے جلد پروگرام لے کر آرہے ہیں۔ افغانستان سے کوئلہ آنے سے سالانہ دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔پاکستان کے اربوں ڈالر کوئلے پر خرچ ہو رہے ہیں۔ کوئلے سے بند پراجیکٹس چلائیں گے، اس سے بجلی پیدا ہوگی۔ نواز شریف دور میں 13 ڈالر پر گیس کے طویل المدتی معاہدہ ہوئے جو آج کام آرہا ہے۔ سابق حکومت کو تین اور سات ڈالر پر گیس مل رہی تھی لیکن انہوں نے نہیں خریدی جس کی وجہ سے مسائل بڑھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی اور بعدازاں مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتوں کے ارکان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے معیشت، توانائی اور دیگر مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے اقدامات پر بھی اعتماد میں لیاجبکہ بجٹ منظوری کے حوالے سے بھی اتحادیوں کیساتھ گفت و شنید ہوئی۔
بظاہر وزیر اعظم میاں شہبازشریف کی ملاقاتوں اور خطاب میں بجلی بحران اور آئی ایم ایف کا معاہدہ نمایاں رہا تاہم سرمایہ کاری، تجارت اور دوسرے معاشی امور پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا اور وزیراعظم شہبازشریف مطمئن ہیں کہ اللہ کی مدد سے جلد خوشحالی آئے گی، خوشحالی کی طرف قدم بڑھائیں گے مگر وقت لگے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قوم کو جہاں جولائی میں لوڈ شیڈنگ میں اضافے کی نوید سنائی گئی ہے وہیں وزیراعظم پاکستان نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا بھی ذکر کیا ہے، لہٰذاضروری ہے کہ موجودہ حکومت کو ہر بحران کا سامنے کرتے ہوئے اِس کے دیرپا اورقابل تجدید ذرائع اور حل پر ضرورغور کرنا چاہیے،
افغانستان سے کوئلہ آنے سے سالانہ دو ارب ڈالر کی بچت ہوگی لیکن کیا ہم کوئلے سے بجلی پیدا کرکے عالمی ادارہ ماحولیات کو اِس حوالے سے مطمئن کرپائیں گے کیونکہ عالمی ادارے اِس وقت کوشاں ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم سے کم بلکہ ختم کیا جائے اور اسی دبائو کی وجہ سے اب کئی ممالک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے دیگرمتبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، سستا کوئلہ درآمد کرکے یقیناً سستی بجلی پیدا ہوگی لیکن مستقبل کے تقاضوں اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو توانائی کے دوسرے ذرائع کی جانب بھی توجہ مبذول رکھنی چاہئے کیونکہ عالمی سطح پر سولر، ہوا اور پانی کے نئے منصوبوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے لیکن ہم ابھی تک کوئلے، تیل اور گیس پر چلنے والے منصوبوں پر انحصار کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بجلی کی قیمت میں موجودہ حالات میں بارہا اضافہ کیا جارہا ہے یہ ملکی انڈسٹری کےلیے قطعی قابل قبول نہیں، گھریلو صارفین بھی بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے پریشان ہیں، انڈسٹری تو مصنوعات کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے پریشان ہے لیکن عام صارف بلوں میں بتدریج اضافے کی وجہ سے سرتھامے ہوئے ہے،
ماضی میں توانائی کے ذرائع کے متعلق ہم نے جتنی بار کوتاہی یا غلط فیصلے کیے ان کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں، ایک طرف طلب کے مطابق رسد اور پیدا وار نہیں تو دوسری طرف قیمت میں بے حد اضافہ واقعی تشویش ناک ہے، اگر ہم بجلی پر سبسڈی کا بتدریج خاتمہ کردیں گے تو انڈسٹری اتنی مہنگی بجلی سے کیا پیدا کرے گی اور مصنوعات کی قیمتیں مقامی اور عالمی مارکیٹ میں کیا جگہ لے سکیں گی، حکومت کو چاہیے کہ وہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھے جہاں توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے اور یہ ممالک اب کوئلے، تیل اور گیس سے چلنے والے پلانٹس کی نسبت قابل تجدید ذرائع کی طرف ہی آرہے ہیں کیونکہ اِس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت قریباً قریباً نصف ہے جس کا سیدھا مطلب گھریلو و کمرشل استعمال کرنے والوں کو ریلیف ہے، اور پھر یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہماری متحدہ حکومت ضرور تبدیلی لیکر آئے گی۔
نئی روایت آئے گی، قوم کی تقدیر بدلے گی اور یہ اعزاز متحدہ حکومت کے حصہ میں آیا ہے۔ خوردنی تیل کے جہاز پاکستان پہنچ رہے ہیں جس سے کھانے کے تیل کی دستیابی ممکن ہوگی۔ سب مل کر محبت سے کام کریں گے تو حالات بہتر ہونگے لیکن ہمیں نئے عزم، حوالے کیساتھ کام کرنا ہوگا۔ اگرچہ موجودہ حکومت کے ابتک اٹھائے گئے تمام تر اقدامات کو معاشی ماہرین حالات اور وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں اور معاشی امور پر نظر رکھنے والے عام پاکستانی بھی سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل فیصلے حالات کی ضرورت تھے اور آئندہ بھی عالمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرنے پڑسکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عام پاکستانی کو اِس معاشی بحران کے اثرات سے کیسے محفوظ رکھنا ہے، اول تو ممکن نہیں کہ کوئی بھی گھرانہ اِس صورتحال سے محفوظ رہ سکے لیکن پھر بھی حکومت کو چاہیے کہ آزمائش میں ڈالتے ہوئے اب عام پاکستانیوں کی معاشی حالت کو ضرور مدنظر رکھے اور اب توازن برقرار رکھنے کے لیے اُن پر وزن ڈالا جائے جن صاحب حیثیت اور وزن اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں۔
حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صاحب ثروت افراد پر براہ راست ٹیکس لگایا ہے اور اِس ٹیکس کے نتیجے میں 200 ارب روپے سے زائد جمع ہونے کی توقع ہے لیکن دوسری طرف مزاحمت کے اشارے بھی دیئے جارہے ہیں کہ شاید سپرٹیکس کو قبول نہ کیا جائے، حالانکہ عوام مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں اِس صورتحال سے نکالنے کے لیے صاحب ثروت افرادکو آگے آنا چاہیے کہ وہ غیر معمولی صورتحال میں اٹھائے گئے غیر معمولی اقدامات کو کامیاب بنائیں، ایک طرف کاروباری لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے تو دوسری طرف دو وقت کی روٹی اور روزگار کے محتاج پاکستانی، جن کی تعداد کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے، ایسے میں جو بھی ملک و قوم کے اعلیٰ مفاد میں اپنی دولت سے حصہ نکال کر قومی خزانے میں ڈالے گا یقیناً اِس کا نام تاریخ میں عزت و احترام سے لیا جائے گا ، ہم جن حالات سے گذر رہے ہیں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں اِن سے بھی برے حالات کا اشارہ دے رہی ہیں اِس لیے اگر ابھی ہم نے اپنے پیر مضبوط نہ کیے اور اصلاحات کے ذریعے چیزوں کو ٹھیک نہ کیا تو خدانخواستہ ہم ایسی آزمائش میں پھنس سکتے ہیں جو ہمارے لیے ناقابل قبول ہو۔ ان سطور میں بتانا ضروری ہے کہ پاکستان اور فرانس کےدرمیان ڈی ایس ایس آئی فریم ورک کے تحت قرض کی ادائیگی مؤخر کرنے کے معاہدے پردستخط ہو گئے ہیں ،جس کے مطابق 10 کروڑ 70 لاکھ ڈالر قرض کی ادائیگی مؤخر کر دی گئی ہے،
اقتصادی امور ڈویژن کے مطابق پاکستان کو 10.7 کروڑ ڈالر جولائی اور دسمبر میں ادا کرنے تھے ، لیکن اب ادائیگی 6 سال بعد ہوگی،ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان اب تک 3.68 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی موخر کراچکاہے،لیکن ہم وزیراعظم شہبازشریف سے متفق ہیں کہ ہمیں قرضوں اور ان کی ری شیڈولنگ سے ہٹ کر اب اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ ہم معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے خود قابل ہوں اور ہمیں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں، ہماری معیشت تو اِس حال پہنچ چکی ہے کہ ہر نئے سربراہ مملکت کو سب سے پہلے انتظامی امور چلانے کے لیے نئے قرض کے حصول اور پرانے قرضوں کی ادائیگی ری شیڈول کرانے کے لیے نکلنا پڑتا ہے ، جو ایک زندہ اور غیور قوم کے لیے انتہائی افسوس ناک ہے، جب ہم آزادی اورخود مختاری کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی قوم ایسا دعویٰ کیسے کرسکتی ہے، ان دنوں ہم آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے عوام پر معاشی بوجھ منتقل کرنے پر مجبور ہیں دیگر ممالک بھی ایسی ہی شرائط پیش کرتے ہیں وگرنہ سود تو لیتے ہی ہیں،
فرانس نے اگرچہ قرض ری شیڈول کردیا ہے اور دیگر دوست ممالک بھی ایسا ہی تعاون کررہے ہیں لیکن واضح رہنا چاہیے کہ ری شیڈول کا مطلب قطعی قرض کی معافی نہیں اور یہ ہمیں بہرصورت ادا ہی کرنے ہیں، اِس لیے قرض کے حصول سے پہلے سمجھ لینا چاہیے کہ مستقبل میں ہمارے وسائل یہ قرض لوٹانے کے قابل ہوں گے یا پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں عوام کو نچوڑنا پڑے گا یا قومی اداروں کو گروی رکھنا پڑے گا یا ناقابل قبول شرائط ماننا پڑیں گی؟ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ قرض لینے سے پہلے اپنی معاشی حالت کو ضرور دیکھ لیا جائے اور ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے کہ تب جو بھی حکمران ہوگا اسی نے اتارنے ہیں ہم تو اپنا وقت گزاریں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت قرضوں کے معاملے پر سابق حکومتوں کی غلطیوں کو ضرور مدنظر رکھے گی اور اُن تمام غلطیوں سے محفوظ رہے گی جس کی وجہ سے آج ملکی معیشت اِس صورتحال سے دوچار ہے اور موجودہ حکومت کو انتظامی امور چلانے کے لیے بھی قرض کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button