ColumnImtiaz Ahmad Shad

اگنی پتھ سکیم .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
بھارت میں پرتشدد احتجاج کئی ریاستوں تک پھیل گیاہے اور یہ سلسلہ ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ شدت کا یہ عالم ہے کہ مظاہرین نے سرکاری عمارتوں، املاک، بسوں اور متعدد ریل گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔ امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باعث کئی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے۔اس تمام بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی مودی سرکار نے اپنی مسلح افواج کو زیادہ منظم اور بہتر بنانے کے نام پر ایک ایسی سکیم متعارف کرائی ہے جس کا اعلان ہوتے ہی پورے بھارت میں شدید رد عمل کا ایک بھونچال آگیا ہے۔
مودی سرکار کی جانب سے اعلان کردہ اس سکیم کا عنوانــ ـ اگنی پتھ، رکھا گیا ہے۔ ہندی کی اس ترکیب کے معنی ہیں آگ کی راہگزر یا آگ کا راستہ، چنانچہ اس متنازع سکیم نے آتے ہی پورے ملک میں ہر طرف شدید غم و غصے کی آگ لگا دی ہے جس سے پورا ملک گذشتہ سولہ دن سے شدید احتجاج کی لپیٹ میں ہے اورخصوصاً بھارتی نوجوان مودی سرکار کے اس منصوبے کے خلاف سخت اشتعال میں ہیں۔بھارت میں بسنے والی اقلیتوں اور سیکولر بھارت کا تصور رکھنے والے پڑھے لکھے طبقے میں اس وقت بے چینی شدت اختیار کر چکی ہے؟اگنی پتھ سکیم کے آتے ہی بھارت کے طول و عرض میں پھیلی اس غم و غصے کی لہر کے پیچھے وہ خدشات ہیں جن کا ذکر اکثر سننے کو ملتا ہے کہ مودی سرکار در اصل ہندوستان کو ہندودیش بنانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ان خدشات کو تقویت اس وقت ملی جب مودی سرکار نے چودہ جون کو اس سکیم کا اعلان کیا، یہ دراصل فوج میں بھرتی کا نیا طریق کار ہے، بھارتی حکومت کے نوٹی فکیشن کے مطابق اس سکیم کے تحت سترہ سے اکیس سال تک کے نوجوان فوج میں ابتدائی طور پر چار سال کے لیے بھرتی کیے جائیں گے، چار سال تک تمام بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو فوجی تربیت دینے کے بعد ان میں سے 75 فیصد کو ریٹائرڈ کر دیا جائے گا جبکہ پچیس فیصد کو چار سالہ مدت کے اختتام پر فوج میں مستقل کر دیا جائے گا۔ پہلے سال کی تنخواہ 28 سے 30 ہزار ماہانہ ہوگی، جبکہ چوتھے سال 40 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملے گی۔ریٹائرڈ ہونے والے 75 فیصد نوجوانوں کو گیارہ سے بارہ لاکھ روپے دے کر گھر بھیج دیا جائے گا۔
اگنی پتھ سکیم کے تربیت یافتہ نوجوان فوجی جوان کے بجائے اگنی ویر (آگ پر چلنے والے، خطرات سے کھیلنے والے، بہادر) کہلائیں گے۔اس سکیم پر بھارت کی تینوں مسلح افواج بھی مودی سرکار کے ساتھ ہیں اور اسے فوج اور ملکی مفاد میں خیال کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس سکیم کے خلاف شدید اشتعال سامنے آیا تو فوجی سربراہان نے اس پر شدید تنقید کی اور مظاہرین کو ملک دشمن تک قرار دیدیا۔
نوجوان تو شاید اس سکیم کی مخالفت اس لیے کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ کیسی نوکری ہو گی جو چار سال بعد ختم ہو جائے گی اور ہم ریٹائر تصورکئے جائیں گے؟ مگراگنی پت سکیم کے متعلق اقلیتوں، سیکولر طبقہ اور اہل دانش مختلف رائے رکھتے ہیں۔بی جے پی کی سیاست اور آر ایس ایس کے کردار کے ناقد بھارت کے لبرل دانشور حلقے اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل بی جے پی اور آر ایس ایس کا نظریاتی منصوبہ ہے، جس کے تحت بھارت کی سیکولر آئینی پوزیشن کا خاتمہ کرکے بھارت کو ہندو راشٹر (ہندو مملکت) بنانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت چار سال کی فوجی تربیت لیکر ریٹائرڈ ہونے والے نوجوان آر ایس ایس کا کیڈر بنیں گے اور آر ایس ایس نہ صرف ان عسکری تربیت یافتہ نوجوانوں کو اپنے نظریاتی مقاصدکے لیے استعمال کرے گی، بلکہ اس کے ذریعے وہ فوج پر بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرلے گی۔چنانچہ بھارت کی تمام لبرل فورسز کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج وادی پارٹی سمیت حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں مودی سرکار کی اس سکیم کی مخالفت کر رہی ہیں اور مطالبہ کر رہی ہیں کہ ممکنہ طور پر بھارتی معاشرے میں انتشار بڑھے گا ۔
یہی وہ نقطہ ہے جس پر ہندوستان کا مسلمان انتہائی فکر مند دکھائی دے رہا ہے۔
مسلمان اس سکیم کو اقلیتوںبالخصوص مسلمانوں کے خلاف انتہائی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ پہلے ہی بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے غنڈہ اور انتہا پسند عناصر کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر تشدد کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اب ہزاروں فوجی ٹریننگ یافتہ نوجوان بھی آر ایس ایس کو میسر آگئے تو آر ایس ایس کو اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے اور اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر اگنی پتھ سکیم کی پرزور حمایت کرنے والوں میں ہندو انتہا پسند اور آر ایس ایس کے حلقے پیش پیش ہیں اور وہ ہندوانہ تعصب کو جگاتے ہوئے اس سکیم کو بھارت میں ہندو مذہب کے غلبے اور ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا اہم ذریعہ اور موقع قرار دے کر ہندو نوجوانوں کو اس سکیم کو قبول کرنے اور اس کے تحت فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیبی مہم چلا رہے ہیں،جس سے مسلمانوں اور لبرل حلقوں کے اس خدشے کو تقویت مل رہی ہے کہ اگنی پتھ سکیم در اصل آر ایس ایس کے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے دیرینہ مقصد کی تکمیل کا حربہ ہے اور یہ فوج کو منظم کرنے کا نہیں بلکہ فوج پر آر ایس ایس اور ہندو انتہا پسندوں کی گرفت مضبوط کرنے کی سکیم ہے۔
اگر مودی سرکار اس سکیم کو کامیاب بنا لیتی ہے جو کہ نظر آرہا ہے کہ کامیاب ہو جائے گی تو پھر اس سے بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل انتہائی مخدوش دکھائی دیتا ہے۔در اصل اگنی پتھ سکیم کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ آر ایس ایس کو منظم فوجی ٹریننگ یافتہ فورس دستیاب ہو جائے گی جس سے ہندوراج قائم کرنے میں مودی سرکار کو مدد ملے گی۔اس عمل سے نہ صرف ہندوستان بلکہ خطے میں امن و امان کی صورتحال تشویش ناک حد تک خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button