Editorial

سپرٹیکس کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے!

وفاقی وزیر خزانہ وریونیو مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے بتایا ہے کہ 13شعبوں کی جن بڑی صنعتوں کی آمد ن 30کروڑ روپے سے زائد ہے، ان پر ایک مرتبہ کے لیے اضافی 10فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا، ان صنعتوں میں چینی تیار کرنیوالی صنعت، سیمنٹ، سٹیل، ٹیکسٹائل، کھاد، بینکنگ انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، بیوریجز انڈسٹری، ایل این جی ٹرمینلز، ائرلائنز، کیمیکلز، آٹو موبائل یعنی گاڑیاں تیار کرنیوالی اور سگریٹ تیار کرنیوالی صنعت شامل ہےاور ایسی تمام صنعتیں جن کی آمدن 30کروڑر وپے سے زائد ہے ،اس پر ایک سال کے لیے 4فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔
بلڈرز اور ڈویلپرز جو مکانات تعمیر کر کے فروخت کرتے ہیں ان پر فکس ٹیکس عائد ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ان ڈائر یکٹ ٹیکس لگائے ہیں، پاکستان کے امیرترین اور صاحب ثروت افراد پر ٹیکس لگائے گئے ہیں تاکہ بجٹ خسارہ کو کم کر سکیں اور جھولی نہ پھیلانا پڑے۔دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی خود کفالت و خود انحصاری کے حصول اور درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ اور میثاق معیشت کی تجویز کا اعادہ کرتے ہوئے غربت اور مہنگائی میں کمی کے لیے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس اور سالانہ 15کروڑ، 20 کروڑ، 25 کروڑ اور 30 کروڑ روپے سے زائد آمدن والے صاحب ثروت افراد پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہمیشہ مشکل وقت اور چیلنجوں میں غریب آدمی نے قربانی دی، اب امیر افراد آگے آئیں، انصار مدینہ کی یاد تازہ کریں، روکھی سوکھی مل کر کھانا ہوگی، مشکل کے بعد آسانی ہوگی،
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ امرا سے ٹیکس لیکر غریبوں پر خرچ کرے، آئندہ مالی سال کا بجٹ معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کا بجٹ ہے، دن رات محنت کرکے ہچکولے کھاتی معیشت کو پار لگائیں گے، مختلف مدات میں سالانہ قریباً دو ہزار ارب روپے کا ٹیکس غائب ہو جاتا ہے، ٹیکس وصولی میں اضافے اور ٹیکس چوری روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔سپرٹیکس پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس کے نفاذ سے پاکستان سٹاک ایکسچینج سےسرمائے کا انخلاء شروع ہوگیا اور مارکیٹ میں مندی کی بڑی لہر دیکھی گئی،78.84 فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت کم ہوئی اور سرمایہ کاری کی مالیت 230 ارب 99 کروڑ 51 لاکھ 4ہزار روپے گھٹ گئی،
بتانے کا مقصد یہ تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے دس فیصد سپر ٹیکس کا اعلان کیا جس کے فوراً بعد سٹاک مارکیٹ 2ہزار پوائنٹس گرگئی اور پھر 1665پوائنٹس نیچے بند ہوئی، یعنی بڑے سرمایہ کاروں نے خود پر سپرٹیکس عائد کرنے کا ردعمل سٹاک مارکیٹ میں مندی کی صورت میں ظاہر کیا ، حکومت مخالف سیاسی جماعتیں اگرچہ سپرٹیکس کے نفاذ کی کھل کر مخالفت کررہی ہیں لیکن عوام اور معاشی ماہرین اِس کے نفاذ کو ملکی ضرورت قرار دے رہے ہیں بلکہ مخالفین کی طرف سے ایسا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حکومت نے یہ ٹیکس آئی ایم ایف کے دبائو پر بڑی صنعتوں پر نافذ کیا ہے لیکن دیکھا جانا چاہیے کہ موجودہ معاشی حالات میں جب ملک ڈیفالٹ ہونے کے خطرات سے دوچار ہے ،
حکومت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں پر بھی پٹرول، بجلی، گیس وغیرہ پر سبسڈی ختم کرکے بوجھ منتقل کرنے پر مجبور ہے ، اس صورتحال میں بڑی صنعتوں یعنی امرا نے اپنا کیا حصہ ڈالا ہے؟ کیونکہ سارا بوجھ تو عملاً اُن پاکستانیوں پر منتقل ہوا ہے جنہیں ریلیف دیا جارہا تھا اور انہیں اب بھی ریلیف کی اشد ضرورت ہے۔ اِس میں قطعی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں امیر اور غریب میں واضح تقسیم ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور ہر نئے دن کے ساتھ اِس میں واضح فرق بڑھتا جارہا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ امیر تو امیر تر لیکن غریب مزید غریب تر ہورہا ہے، آج ہر عام پاکستانی چھوٹی سے چھوٹی چیز کی خریداری پر مکمل ٹیکس ادا کررہا ہے اس کے برعکس بڑی صنعتیں اور ادارے جو سالانہ اربوں کھربوں کماتے ہیں وہ ٹیکس بچانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق اربوں روپے ٹیکس کے کیس ملک کی عدالتوں میں سٹے آرڈر پر فریز پڑے ہیں جن میں ریاست مدعی ہے لیکن پھر بھی وہ اُن سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال ہر عام پاکستانی کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ ہر پاکستانی مہنگے پٹرول، مہنگی بجلی اور مہنگی گیس سمیت عام استعمال کی ہر چیز کئی گنا مہنگی خریدنے پر مجبور ہے، مہنگائی کی شرح 28.5 فیصدہوچکی ہے، محکمہ شماریات کے مطابق 32 اشیاء کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ جبکہ صرف چار کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔
عام پاکستانی کے استعمال کی اشیا دال، خوردنی تیل، گھی، دودھ، بڑا گوشت، آٹا اور انڈے مہنگے ، ٹماٹر، مرغی اور سرسوں کا تیل سستا ہوالیکن باقی چیزیں مہنگائی کی حدوں کو عبور کرچکی ہیں مگر اس کے باوجود حکومتی ذمہ داران کے مطابق معاشی بحران سے بچنے کے لیے حکومت کو مزید ایسے مشکل فیصلے لینے پڑ سکتے ہیں جن کے نتیجے میں مزید معاشی بوجھ عام شہریوں پر منتقل ہو جو نسل در نسل مہنگائی میں کمی اور ریلیف کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں لیکن اِس پر کیا کہاجائے کہ موجودہ معاشی بحران میں عام پاکستانی تو اپنا پیٹ کاٹنے کے لیے تیار ہے لیکن اربوں اور کھربوں کمانے والے اپنا حصہ ڈالنے سے گریزاں ہیں جس کا ردعمل سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ حکومت نے حسب اعلان و وعدہ امرا پر بھی معاشی بوجھ منتقل کرنا شروع کردیا ہے جن کے لیے یہ معاشی بوجھ اُٹھانا قطعی مشکل نہیں اور انہوں نے اِسی ملک اور اس کے باسیوں سے یہ مال و دولت کمایا ہے جس کا حکومت ایک انتہائی چھوٹا حصہ بطور ٹیکس مانگ رہی ہے لیکن جیسے حالات نظر آرہے ہیں لگتا یہی ہے کہ حکومت کو سپرٹیکس کے نفاذ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا
اگر حکومت بالآخر کامیاب بھی ہوجاتی ہے تو یہی صنعتیں اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھاکر قوم کی جیب سے وہ پیسہ نکال لیں گی کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور بسا اوقات حکمران یہ کہنے پر مجبور بھی نظر آئے کہ وہ ایسے مالداروں کے سامنے بے بس ہیں، عوام پاکستان اور معاشی ماہرین کی اکثریت زیر بحث سپرٹیکس کے نفاذ کو حکومت کی مجبوری قرار دیتی ہے تو دوسری طرف اِس کوخوش آئند بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت کا غریب یا تنخواہ دار طبقہ کے بجائے امیروں سے اضافی ٹیکس لینے کا فیصلہ اچھا ہے کیوں کہ بڑی صنعتیں پہلے ہی منافع پر چل رہی ہیں اور ان کی بہترین حکمت عملی اور سازگار ماحول کی وجہ سے انہیں ہمیشہ منافع ہی ملتا ہے اِس لیے اگر ایک معمولی سا حصہ ملک و قوم کے لیے دے دیا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں بلکہ ایسے سرمایہ داروں کو اعلانیہ طور پر سامنے آکر کہنا چاہیے کہ وہ اِس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گے،
ایسا بھی ہم سن چکے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین افراد نے اپنی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُن پر مزید ٹیکس عائد کریں تاکہ ان کا سرمایہ عام شہری کے حالات بدلنے کے لیے کام آسکے اس لیے ہمارے ہاں بھی ایسے اعلانات ہونے چاہئیں۔ اس معاملے پر سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے لیکن لب لباب یہی ہے کہ آپ جس ملک و قوم کی وجہ سے آج امرا میں شمار ہوتے ہیں آج اسی ملک و قوم کو آپ کی فراخ دلی کی ضرورت ہے۔ ان سطور میں بتانا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق چین نے پاکستان کو قرضہ نہیں بلکہ گرانٹ دی ہے اور چین سمیت تمام دوست ممالک سرمایہ کاری کے ذریعے ہماری ترقی اور خوشحالی میں حصہ ڈال رہے ہیں، عوام غیر ملکی سرمایہ کاری کے محافظ بنیں، یوں چینی گرانٹ کے معاملے پر بھی اب کج بحثی کا اختتام ہوجانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button