ColumnImtiaz Ahmad Shad

رجوع الی ا للہ .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

کبھی غور کریں آخر ہر سو مشکلات نے ہمیں ہی کیوں گھیرے میں لے رکھا ہے؟پوری دنیا خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن ہے ، ہم ہی کیوں اندھیرے میں ٹامک ٹویاں مارتے پھر رہے ہیں؟ دنیا مٹی کو ہاتھ لگاتی ہے تو سونا بن جاتی ہے اور ہماری سونا اگلتی دھرتی کیوں بنجر پن کا شکار ہے؟ ایسا نہیں کہ صرف ہمارے ہی حالات خراب ہیںیا فقط ہمیں ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ دنیا میں کسی بھی انسان یا خطے کے ہمیشہ ایک جیسے حالات نہیں رہتے۔ حاصل ہونے والی خوشی دائمی ہوتی ہے نہ غم، بلکہ کبھی غم ہے تو کبھی خوشی، کبھی درد و الم ہے تو کبھی فرحت و انبساط، کبھی بیماری ہے تو کبھی صحت مندی، کبھی تفکرات و الجھنیں ہیں تو کبھی بے فکری و مسرت، کبھی تنگی ہے تو کبھی آسودگی، کبھی سکون ہے تو کبھی بے چینی، کبھی خوشحالی ہے تو کبھی بدحالی۔ یہ تمام سلسلے ہر فرد ،قوم اور ملک کے ساتھ ہیں، کوئی بھی ان سے مبرا نہیں ہے۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب اجتماعی طور پر بطور قوم ایسی روش اختیار کر لی جائے جو تباہی کا سبب ہو تو درد و الم، مصائب و مشکلات کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ مصائب سے جلد بددل ہو جاتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ زندگی مصیبتوں اور آزمائش کا مجموعہ بن گئی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب امتحان کا نزول انسان کی بلند پرواز کے لیے ہوتا ہے۔ دراصل ان مشکل حالات میں انسان کے طرزِ عمل کی آزمائش ہو رہی ہوتی ہے۔لہٰذا اگر انسان زندہ رہے، بیمار ہو، صحت یاب ہو، خوشی ملے اوررزق میں وسعت ہوتویہ سب اس کے طرزِ عمل کی آزمائش اور امتحان ہیں۔رب کائنات انسان کے چال چلن کو پرکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام رہتا ہے۔ سورہ ملک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وہ ذات جس نے زندگی اور موت کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کون اچھے عمل کرنے والا ہے‘‘۔
انسان کی حقیقت کا علم اس وقت ہوتا ہے جب حالات سخت ہوں اور انسان مصیبتوں میں گھر جائے کہ اس حال میں صبر سے کام لیتا ہے یا جزع فزع کرتا ہے۔ اسی طرح خوش حالی میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ انسان نعمت ملنے پر شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے۔اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آفات شاید اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں سزا دینے کے لیے ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے ان کی مصیبتوں میں اور بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا درد اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً انسان میںان مشکلات سے نبرد آزما ہونے اور مزاحمت کرنے کی صلاحیت بھی ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو چاہتا اور پسند کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے، بندہ جب اس پر راضی رہتا ہے تو اللہ اس سے راضی و خوش ہو جاتا ہے اور بندہ اگر اس پر ناراض ہوتا ہے اور خفگی کا اظہار کرتا ہے تو اللہ اس سے ناراض و ناخوش ہوجاتا ہے۔اس فرمان نبوی ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات میں سزا نہیں بلکہ اصل آزمائش مصائب میں صبر نہ کرنے میں ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آزمائش میں گھرا ہو کہ یقین سے کہا جا سکتا ہو کہ یہ اس کے گناہ کی سزا ہے تو بھی اسے عذابِ الٰہی سے تعبیر کرنا مناسب نہیں۔حضرت علی ؓ سے پوچھا گیا کہ آزمائش اور سزا میں فرق کیسے ہو؟ آپ نے فرمایا: اگر مصیبت تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے تو آزمائش ہے اور اگر اللہ سے دور کر دے تو سمجھ لو کہ سزا ہے۔
فرمانِ نبویﷺ ہے کہ کسی مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھے تو بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے یا اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔انسان کو آزمائش میں مبتلا کیوں کیا جاتا ہے اور اس وقت ہمارا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے ہمیں نہ صرف مکمل معلومات ہونی چاہئیں بلکہ ہر وقت آزمائش اور اس میں اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ طرزِ عمل اختیار کرنے کو بھی ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی آزمائش کا ایک سبب یہ بتایا ہے کہ سچے، جھوٹے، مضبوط اور کمزور ایمان والوں کے مابین فرق کیا جائے۔ جب باطل قوتیں زور پکڑ لیں، تب مومنین و منافقین کے فرق کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے مواقع پر وہی لوگ راہ حق پر ڈٹے رہتے ہیں جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے، جبکہ کمزور ایمان والے منافق آزمائش کے موقع پر راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ابتلاء اور آزمائش کی ایک حکمت انسان کی شخصیت کا ارتقاء ہے۔ مومن جب مشکلات سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے اندر قوت ایمانی جنم لیتی ہے، جس سے بہت سی اخلاقی خرابیاں دور ہونے کا موقع فراہم ہوتا ہے، کیوں کہ صاحب ایمان خوشی و غم کے ہر مرحلہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر برداشت کرتا ہے اور یہ برداشت اس کی شخصیت کو اندرونی نکھار عطا کرتی ہے۔ جب مومن آزمائش سے صبر کے ساتھ گزر جاتا ہے تو اس کے فکر و عمل میں صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تکلیف اور آزمائش سے گزر کر ہی انسان کندن بنتا ہے۔ آزمائش میں بندہ مومن کے لیے خیر ہی خیر ہے بشرطیکہ وہ اس پر صبر کر کے اللہ کی مدد کا خواستگار ہو۔ذرا غور کریں پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی مشکلات کا شکار ہے، اور اہل وطن ایک سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں، کیا اس کا سبب یہ نہیں کہ ہم اللہ اور رسول ﷺ کا پیغام بھول کر اغیار کو خدا تصور کر بیٹھے ہیںاور اپنی ہر مشکل اور پریشانی میں ان اغیارکے در پر جاتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی سربراہی ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان اور یقین ناپید ہے۔وہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر ہم دنیا کی ان سپر پاورز سے ٹکرائیں گے تو پاش پاش ہو جائیں گے۔حالانکہ انہیں بھی تین سو تیرہ کے ایمان کی مضبوطی کا مکمل علم ہے۔اس وقت سیاسی کشمکش میں بہت سے لوگ وطن عزیز کی سلامتی کے حوالے سے مایوس اور دکھی دکھائی دیتے ہیں۔ہر سو مایوسی کے بادل زوروں سے برس رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں سے لے کر ریاستی اداروں تک ہر جگہ ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام آزمائشیں ہم پر مسلط ہو چکیں۔ مگر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ مومن بار بار آزمائے جاتے ہیں،یاد رہے ایمان دل سے شروع ہوتا ہے ،اعمال سے ظاہر ہوتا ہے اور نیت سے پروان چڑھتا ہے۔اگر آج بھی ہم اپنے دلوں میں ایمان پیدا کر لیں ،اجتماعی طور پر اللہ کی طرف رجوع کر لیں،خوف کے بت توڑ دیں، تو دنیا کی تمام چالیں بے کار ہو جائیں گی اور انشاء اللہ ہم ان آزمائشوں سے نکل جائیں گے۔جب تک ہم اللہ کی ذات پر یقین محکم نہیں رکھتے مشکلات ہر پل ہمارے سروں پر منڈلاتی رہیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button