ColumnKashif Bashir Khan

پارلیمانی نظام .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

دنیا میں پارلیمانی نظاموں کا بغور جائزہ لیاجائے تو یہ ہی معلوم پڑتا ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت کے تحت معرض الوجود آنے والی اسمبلیوں کا بنیادی کام قانون سازی ہوتا ہے۔اراکین عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آتے ہیں تو عوام کے مسائل ان کے پیش نظر ہوتے ہیں اور وہ ان مسائل کے حل یعنی قانون سازی کے لیے پارلیمانی نظام میں کوشش کرنے اور قانون سازی کروانے کے پابند ہوتے ہیں۔چند بنیادی مسائل کے علاوہ بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں جو حلقوں کے حدوداربعہ اور رنگ و نسل کی وجہ سے مختلف ہو سکتے ہیںاور ان کو صوبائی اور قومی سطح پر حل کرنے کی ذمہ داری منتخب اراکین کے کاندھوں پر ہوتی ہے،لیکن پاکستان میں قائم پارلیمانی نظام حکومت کے ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد گو کہ تمام صوبے کافی حد تک خودمختار ہو چکے ہیں لیکن اس خود مختاری کا عملی ثبوت یعنی اس نظام کے عوام کی بہتری کے ثمرات کہیں بھی نظر نہیں آتے۔

پاکستان کی سیاست 2013 کے انتخابات سے قبل عملاً دو سیاسی جماعتوں کے نظام کے تحت چل رہی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز بطور مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے ملکی سیاست پر قابض تھیں۔2013 میں تحریک انصاف نے اس دوجماعتی سیاست میں گہری دراڑ ڈالی اور صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف اپنی صوبائی حکومت بنائی بلکہ قومی اسمبلی میں بھی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔تحریک انصاف کے عمران خان ملک کے بڑے سیاسی رہنما بن کر ابھرے اور شواہد بتاتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات بھی انجینئرڈتھے،میاں نواز شریف مسند اقتدار پر بیٹھے لیکن آصف علی زرداری اور عمران خان سمیت پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے 2013 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان تحریک انصاف کو پہنچا یا پہنچایاگیاتھا اور اس کے خلاف عمران خان نے لانگ مارچ بھی کیا اور ایک طویل دھرنا بھی دیا۔عوام یہ بھی نہیں بھولے  ہوں گے بلکہ بھولنا بھی نہیں چاہیے  کہ اسی لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران ہی ماضی کے دو سیاسی دشمن جماعتیں کسی بھی تبدیلی کے تناظر میں عمران خان کے خلاف متحد ہو گئی تھیں،
حالانکہ 2007 میں جب مشرف سے ڈیل کر کے بینظیر بھٹو ملک واپس آئی تھیں تو نواز شریف کو بھی معافی دلوا کر ساتھ لائی تھیں اور اس سے پہلے ان دونوں جماعتوں نے چند اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاکر میثاق جمہوریت نامی سیاسی معاہدے پر بھی دستخط کئے تھے لیکن پی پی کو اقتدار ملنے کے بعد دونوں سیاسی جماعتیں پھر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتی دکھائی دی تھیں۔10 سال یعنی 2008 سے لیکر 2018 تک دونوں روایتی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاز آرا رہیں اور پھر جب 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے مرکز میں اکثریت حاصل کر کے پنجاب سمیت خیبر پختونخوا میں حکومتیں بنا لیں تو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ پھر اکٹھی ہو گئی اور اس میں مولانا فضل الرحمان کا تڑکا بھی لگاکر مبینہ بیرونی سازش کے ذریعے حکومت سے بیدخل کر دیا۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف شروع دن سے مولانافضل الرحمان سرگرم تھے جو قومی اسمبلی یاسینیٹ  کے رکن بھی نہیں تھے، یعنی پارلیمانی طرز حکمرانی میں تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے نکالنے میں ایک غیر پارلیمانی شخصیت کا کردارسب سے بڑا تھا اور وہ اپنی جماعت کے زیر انتظام چلنے والے سینکڑوں مدرسوں کے طالب علموں کے ساتھ دو مرتبہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے نام پرمورچہ زن بھی ہوئے۔ اب یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ انہیںاسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے لیے کس نے ہلا شیری اور ترغیب دی تھی۔ اس کے بعد بلاول بھٹوزرداری نےسندھ کی صوبائی حکومت میں ہونے کے باوجود اسلام آباد کی طرف مارچ کیا اوران پر
حکومت سندھ کے فنڈز اور وسائل کالانگ مارچ میں بے دریغ استعمال کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے، کل کے تمام دشمن مل بیٹھے اور ڈیفیکشن کا قانون ہونے کے باوجود حکمران جماعت کے ممبران قومی اسمبلی کو کھلم کھلا خریدا گیا اور ان کی ہمدردیاں تبدیل کی گئیں۔ آج تو ایک عام پاکستانی بھی پوچھ رہا ہے کہ یہ کیسی پارلیمانی جمہوریت یا نظام حکومت ہے جس میں ارکین اسمبلی کو کھلم کھلا خریدا جاتا ہے اور پھر تمام ادارے بھی خاموش رہتے ہیں اور ایک جماعت کے تمام اراکین کے استعفوں کے باوجود ان کے استعفوں کو منظور نہیں کیا جاتا اور خریدے ہوئے منحرف اراکین قومی اسمبلی کو الیکشن کمشنر نااہل قرار دینے کی بجائے خاموشی سے دیکھتا ہے کہ ان میں سے ایک رکن کو ڈمی اپوزیشن لیڈر بنا دیا جاتا ہے اور قومی اہمیت کے بڑے فیصلے مل جل کر کرنے شروع کر دیئے جاتے ہیں۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ پارلیمانی نظام حکومت ہے یا پھر ملی بھگت پر مشتمل نظام جس میں اپوزیشن لیڈر مبینہ طور پر برسر اقتدار سیاسی جماعت کے ٹکٹ کے حصول کا متمنی ہو اور جس جماعت سے وہ الیکشن جیتاہو وہ اس کے خلاف الیکشن کمیشن اور عدالت میں نااہلی کے کیس کر چکے ہوں۔اسی طرح پنجاب کی بھی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ جب حکومت سادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود قائم رہے تو پھر کون سا پارلیمانی نظام حکومت؟الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے پانچ اراکین کی نامزدگی سے بھی گریزاں ہے۔پارلیمانی نظام حکومت جو جمہوریت کے بطن سے نکلی ہے، کے بارے میں ارسطو نے صدیاں پہلے سچ ہی کہا تھا کہ جمہوریت میں سروں کو گنا جاتا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے موجودہ پارلیمانی نظام حکومت میں تو سروں کو بھی نہیں گنا جا رہا ۔
پاکستان میں آج تک حقیقی صدارتی نظام کبھی بھی رائج نہیں ہوا اور آج پاکستان بننے کے بعد ہم پارلیمانی نظام حکومت کی بدترین شکل کو طرز حکمرانی کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اب برملا کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت کو بچانے کے لیے وسیع پیمانے پر ’’فیلڈنگ ‘‘سیٹ کرلی گئی ہے اورویسے بھی بلدیاتی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی میں پارلیمانی نظام حکومت عام عوام کے لیے بیکار ہے اور پاکستان کی 75 سالہ تاریخ ثابت کر چکی کی پارلیمانی نظام کے تحت اسمبلیوں میں آنے والوں نے اس ملک و عوام کی خدمت اور فلاح کے تناظر میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ پارلیمانی نظام حکومت کو سراہا جائے۔ پارلیمانی نظام کی اس تباہی کے ذمہ دار اگر سیاست دان ہیں دیگر ستون بھی بری الذمہ قرار نہیں دیئے جاسکتے ۔آج ہم تاریخ کے جس دوراہے پر کھڑے ہیں، وہ متقاضی ہے کہ نہ صرف پارلیمانی نظام حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے بلکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک نیا سوشل کنٹریکٹ بھی تشکیل دیا جائے جس کے تحت احتساب کے ادارے ختم کرنے کا اختیار کسی سیاسی طاقت کے پاس نہ ہو۔یقین جانئے اگر اب بھی اس طرح کے پارلیمانی نظام حکومت سے چھٹکارا حاصل نہ کیا گیا تو پھر قائد اعظم کا پاکستان کہاں جائے گا اس کا اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں۔۔۔سوچئے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button