حکمران،عوام اورصف ماتم! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
اکثریتی پاکستانی عوام کے گھروں میں اِن دنوں صف ماتم بچھی ہے،کسی بھی انسان کی خواہشات اور تمام تر تدابیرکے باوجود جب کوئی کام برعکس منشا ہو تو انسان کی بے بسی اسے چاروں پہر رُلاتی ہے۔کچھ ایسا ہی حال ریاست پاکستان کے باشندوں کا موجودہ دور میں ہو چکا ہے۔ انسان کی بنیادی ضروریات کا حصول اس کی زندگی کا تریاق ہوتا ہے اور انسانی نشوونما ، آگے بڑھنے کی تگ ودو میں مددگار بھی۔انسانی جبلت ہے کہ وہ آسان مستقبل کے لیے حال میں محنت کرتا ہے ۔انسانی قبیلوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ان کی زندگیاں خوشگواربنانے کا بنیادی اور ضروری عنصر ہوتا ہے۔ ریاست و حکومت کی اولین ترین زمہ داری میں شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے باشندوں کی زندگیاں آسان کرنے کا نہ صرف بندوبست کرے بلکہ انہیں تعلیم،صحت،ذریعہ معاش اور انصاف وغیرہ کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔آئین پاکستان کے پہلے قریباً 25 آرٹیکل بھی عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی پر مبنی ہیں اور آئین پاکستان ریاست کے چلانے والوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ عوام کو تمام بنیادی ضروریات فراہم کریں۔
پاکستان کی پیدائش کے فوری بعد تو آئین ہی نہ بن سکا اور اگر 1956 میں بنا بھی تو اس کی زندگی صرف دو سال تھی۔1962 میں ایک ڈکٹیٹر نے جو آئین بنایا اس کو بنانے کے مدنظر ایک آمر کے غیر جمہوری اقتدار کی طوالت تھا۔ آئین کی محرومی صدر ایوب کے زمام اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی پھر پاکستان کا مقدر بنی اور اس محرومی کی وجہ سے ہی ہم نے مشرقی پاکستان کو اپنے سے جدا کروا لیا۔کاش کہ 1971 میں پاکستان کے پاس ایسا آئین موجود ہوتا جو مشرقی پاکستان کے عوام کی محرومیوں پر پھاہا رکھ سکتا تو آج ہم بھی سب سے بڑا اسلامی ملک ہوتے اور نہ ہی مشرقی پاکستان میں کشت و خون بہتا۔خیر بات عوام کی ہو رہی تھی کہ دل کے نہال خانوں میں دفن ماضی کی تلخ یادوں نے پھر سے دریچہ کھول ڈالا۔
پاکستان کا موجودہ آئین جسے ہم 1973 کا آئین کہتے ہیں، کی موجودگی عام عوام کے لیے باعث تقویت کبھی بھی نہیں رہا اور عوام کا استحصال یعنیمعاشی،قانونی اور اخلاقی،کبھی بھی نہ رک سکا۔ آئین پاکستان کو ہر دور میں موم کی ناک بنا کر اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے اپنی جانب موڑنا اور استعمال کرنا ہر روز کا معمول بن چکا ہے۔یہ سلسلہ اس آئین کے بننے کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر متعدد مرتبہ اسے معطل بھی کیا گیا اور پھر جب بحال کیا گیا تو اس میں ہر حکمران نے اپنی مرضی کی ترامیم شامل کیں۔آٹھویں ترمیم سے لے کر اٹھارویں ترمیم تک اس آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑنے میں آمر اور نام نہاد جمہوری حکمران برابر کے شریک رہے۔اس آئین پاکستان کے زیر سایہ عوام تباہ حال ہوتے گئے اور اشرافیہ مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔حاکم اور محکوم کا ظالمانہ فرق وسیع تر ہوتا گیا اور عوام کی حیثیت رعایا کی سی ہو گئی۔جس ریاست میں عوام اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم پر تھانے اور کچہری میں جانے سے خوف کھاتے ہوں وہاں پر آئین و قانون کی حکمرانی کی ابتری کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔تھانوں اور کچہریوں میں عوام سے جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ دردناک بھی ہے۔آئین پاکستان کے انسانی حقوق کے آرٹیکلز کا ہی اگر بغور جائزہ لیں تو ان تمام آرٹیکلز کو پاکستان میں ہر روز بے رحمی اور بے دردی سے روندا جاتا ہے۔جس ملک میں سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی(پنجاب)میں پولیس کو گھسا دیا جائے اور وہ مردوخواتین اراکین اسمبلی پر تشدد کر کے انہیں اسمبلی سے نکال دیاجائے، تو آئین پاکستان کی حکمرانی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا۔
جس ملک میں اسمبلی کے اندر پولیس گھس کر اراکین اسمبلی پر تشدد کرتی ہو تو عام عوام کی اس ریاست میں حیثیت اور اوقات آسانی سے معلوم ہو سکتی ہے۔آج قوم کا بٹوارہ کیا چکا ہے اور اس تقسیم میں یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں محسوس کی جا رہی کہ اگر عمران خان عوام کو سستا پٹرول اور بجلی مہیا کر رہا تھا تو اس نے ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کا کام کیا۔کالم میں جگہ کہ تنگی کے باعث تفصیلات لکھنا ممکن نہیں لیکن اگر کوئی حکومت اپنے دوسرے منصوبوں سے فنڈز نکال کر عوام کو سستی بجلی اور پٹرول مہیا کرتی ہے تو یہ اس کی مہارت کہی جائے گی۔ عوام کے درمیان صف ماتم بچھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اتحادی حکومت کو لانے والوں نے ان کے 2018 میں دیئے ہوئے مینڈیٹ کی نہ صرف توہین کی ہے بلکہ ان کا پیسہ لوٹنے والوں کو ان کے سروں کو دوبارہ اقلیت میں ہونے کے باوجود لا بٹھایا ہے اور کرپشن کے لاتعداد مقدمات کا سامنا کرنے والے موجودہ حکمرانوں نے 2018 میں مسترد کئے جانے کا بدلہ عوام سے اتنے برے طریقے سے لیا ہے کہ عوام ہر گلی محلے اور سڑک پر ان حکمرانوں پر تنقید کرتے سنے جاسکتے ہیں۔اپریل سے لیکر اب تک عوام کےچہروں سے ہنسی چھین کر ان کی زندگیوں کو جہنم سے بھی برتر بنانے والے شاید اقتدار ملنے پر خوش ہوں
لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب عوام میں غربت اور بے بسی پھیلتی ہے تو پھر ایسا انتشار پھیلا کرتا ہے جو بڑے بڑے پہاڑوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح اڑا دیا کرتا ہے۔کاش کہ حکمران اپنے پروٹوکول اور عیاشیاں جوڑ کر بھیس بدل کر کبھی عوام میں جاکر ان کے نالے اور بددعائیں سنیں جو وہ جھولیاں اٹھا اٹھا کرسرعام دکھائی دیتے ہیں۔جن کے منہ کے نوالے حکمران چھینیں گے اور پھر مفتاح اسماعیل جیسا وزیر ہنسے گا یا شہباز شریف صاحب ہر بار قیمتیں آسمان پر پہنچا کر بولیں گے کہ’’دکھی دل کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ کیا‘‘ وہاں کی عوام اپ پر پھول نہیں پھینکے گی۔
موجودہ حکمران سمجھتے ہیں کہ اقتدار ملنے کے بعد نیب قوانین میں ترامیم اور مختلف محکموں میں فیلڈنگ لگا کر وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ مارچ سے اب تک عوام کو ان حقیقتوں کا بھی علم ہو چکا جو انہیں معلوم نہیں تھیں۔پاکستان کا گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں جانے پر ملتان سے بہت اچھی دوست اور سیاسی ایکٹیوسٹ رابعہ خالد نے ایک پوسٹ بھیجی ہے جو میں اس کالم میں شامل کر رہا ہوں۔قصہ کچھ ہوں ہے کہ ایک شیخ ہر سال میٹرک میں فیل ہو جاتا، اساتذہ نے کوشش کر کے دیکھ لیا لیکن ناکام رہے، امتحان سے چند دن قبل شیخ کےوالد نےاُس کے لیے ایک اور استاد کا بندوبست کیا۔رزلٹ سے چند دن قبل شور مچ گیا کہ اب کی بار شیخ پاس ہو گیا۔شیخ کے پرانے اور نئے استادوں نے کریڈٹ لینا شروع کر دیا۔تازہ تازہ بنے استاد کہنے لگے کہ دیکھیں جی ہم نے چند دن میں محنت کرا کے شیخ کو پاس کروا دیا جبکہ پرانے استاد صاحب کا کہنا تھا یہ میری کئی سالوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔
اس بات پر بحث جاری تھی کہ کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ کریڈٹ لیتے رہنا پہلے گزٹ سےاس کا رزلٹ تو دیکھ لو۔ گزٹ دیکھا تو وہاں لکھا ہوا تھا کہ رزلٹ لیٹ ہے جبکہ تحریک انصاف کے دور میں موجودہ اپوزیشن اتحاد فیٹف کمیٹی کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستان کی سالمیت کے تناظر میں ہونے والے ترامیم کو صرف اپنے این آراو کی منظوری سے مشروط کر کے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے تھے اور آج پاکستان کا فیٹف کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں جانے کا کریڈٹ لینا چاہ رہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو مشورہ ہے کہ عوام کو اب اتنا بیوقوف نہ سمجھیں اور نہ ہی بنائیں۔ سوشل میڈیا نے عوام کے سامنے بہت سی حقیقتیں کھول دی ہیں اور چھپے ہوےچہرے بے نقاب ہو چکے۔اس حقیقت کا اندازہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں حکمرانوں کو ہوجائے گا۔عوام بلکہ بدترین مہنگائی سہنے والے عوام موجودہ حکمرانوں کا کوئی بہانا سننے کو تیار نہیں ہیں۔