
بھارت میں حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سابق خاتون ترجمان نوپور شرما کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں گستاخانہ بیان کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ معاملہ 27 مئی کو شروع ہوا جب بھارتی فیکٹ چیک نیوز ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی و صحافی محمد زبیر نے نوپور شرما کی جانب سے قومی ٹی وی پر رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا کلپ ٹوئٹ کیا۔
ان کی ٹوئٹ کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور عرب ممالک میں احتجاجی مہم چل پڑی۔
احتجاج مہم کے باعث کئی عرب ممالک نے بھارتی سفیروں کو طلب کرکے احتجاج کیا اور بھارتی حکومت سے معافی کا بھی مطالبہ کیا۔ عرب ممالک کے بعد یہ سلسلہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی پھیل گیا اور کئی اسلامی ممالک نے بھی بھارت کے سفیروں کو بلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
اس سب کے باوجود حکومتی سطح پر بی جے پی نے معافی نہیں مانگی بلکہ بھارت میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر ہی تشدد کا بازار گرم کردیا۔
گزشتہ جمعے کو بھارت کے مختلف شہروں میں توہین رسالت ﷺ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے لیکن انتہاپسند ہندوؤں اور پولیس نے بھارتی شہر رانچی میں فائرنگ کرکے 16 سالہ نوجوان سمیت 2 افراد کو قتل کیا اور متعدد افراد زخمی ہو گئے ۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلمان مظاہرین کو پولیس اور ہندو انتہا پسند جتھوں نے گولیاں ماریں اور تھانوں کے اندر بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت کو مسلمانوں پر بد ترین تشدد اور فائرنگ کرنے کے بعد بھی چین نہ آیا اور احتجاج میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کے اسرائیلی طرز پر گھر مسمار کرنا شروع کردیے ہیں۔
ان تمام واقعات میں سب سے اہم بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر الہٰ باد میں ویلفیئر پارٹی کے رہنما محمد جاوید کی گرفتاری اور ان کا گھر مسمار کرنا ہے اور اسی وجہ سے ان کی بیٹی آفرین فاطمہ کا نام بھی خبروں میں آرہا ہے۔
آفرین فاطمہ طالب علم رہنما ہیں اور وہ طلبہ سیاست میں انتہائی فعال رہی ہیں۔ آفرین نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے 2021 میں ماسٹرز مکمل کیا ہے۔
آفرین فاطمہ بھارتی شہر پریاگ راج (الہٰ آباد) میں پیدا ہوئیں اور وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گرلز کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ وہ دہلی کی جواہر لعل نہرو(جے این یو) کی طلبہ یونین کی قونصلر بھی ہیں۔ آفرین بھارتی حکومت کے فاشسٹ اقدامات کی سخت ناقد ہیں اور متنازع شہریت کے قانون کے خلاف شاہین باغ میں ہونے والے احتجاج میں بھی پیش پیش رہیں۔
اس کے علاوہ بھارت کی جنوبی ریاستوں میں حجاب کے حوالے سے ہونے والے احتجاج کا بھی حصہ رہی ہیں اور کشیدگی کے دوران طالبات سے اظہار یکجہتی کیلئے وہاں کے دورے بھی کیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آفرین فاطمہ یونین صدر کی حیثیت سے 2018 میں ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر یونین ہال سے ہٹانے کے خلاف ڈٹ گئیں تھی اور شدید احتجاج کیا تھا۔
علی گڑھ طلبہ یونین نے واقعے کے خلاف کئی روز دھرنا بھی دیا تھا ۔
Muslims in India have been taken for granted for a long long time now. This is now a FIGHT for the self respect and dignity of the Muslim community. Insha'Allah! pic.twitter.com/VtX0OZVNiT
— Afreen Fatima (@AfreenFatima136) February 17, 2020
اس کے علاوہ آفرین کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ بی جے پی کی مسلم دشمن پالیسیوں پر تنقید کر رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ ‘آپ ہم پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شلینگ کرتے ہیں، یہ صرف مسلمانوں کے کیمپس میں استعمال کیے جاتے ہیں، یہ مسلم مخالف حکومت ہے اس کے خلاف لڑائی چھڑی ہے اور یہ لڑائی ہماری عزت نفس کی ہے’۔
آفرین فاطمہ والد کی گرفتاری اور غیرقانونی طور پر گھر مسمار کیے جانے کے خلاف بھی ڈٹ گئی تھی۔