Editorial

کفایت شعاری کیلئے وفاقی کابینہ کے اہم فیصلے

حکومت نے توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے کفایت شعاری مہم پر عملدرآمد شروع کردیا ہے ۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ملک میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ اور اس پر قابو پانے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کیا گیا۔توانائی کی بچت کا پلان پیش کیاگیااور وفاقی کابینہ نے ہفتے کی چھٹی بحال کرنے کی منظوری دیدی ۔ وزراء اورسرکاری عہدیداروں کے فیول کو ٹہ میں 40فیصد کمی، حکومتی خرچ پر بیرون ملک علاج پر پابندی اور سرکاری میٹنگز ورچوئل ویڈیو پر کرنے ۔
سرکاری دفاتر میں لنچ، ڈنر، ہائی ٹیز اور گاڑیا ں خریدنے پر پابندی۔ ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ تمام نئی بھرتیوں اور سرکاری دفاتر کے لیے فرنیچر کی خریداری پر پابندی عائد تاہم تجارتی مراکز جلد بند کرنے کے حوالے سے فیصلہ نہیں ہوسکااور تاجروں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں ملک میں توانائی کے بچت کے اقدامات کے تحت بازار رات ساڑھے 8 بجے بند کر نے پر صوبوں نے اصولی اتفاق کیا ہے تاہم سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ نے دودن کی مہلت مانگی ہے تاکہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں تجارتی و کارباری تنظیموں سے مشاورت مکمل کریں۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے قمرزمان کائرہ، امین الحق اور مولانا اسعد کے ساتھ میڈیا کو بتایا کہ پٹرول پر مستحق افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دیں گے،مشکل وقت سے نکلنے کے لیے غیر مقبول اور مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ وزیراعظم نے رضاکارانہ طور پر اپنی اور وفاقی وزرا کو مہیا سکیورٹی گاڑیوں میں 50 فیصد کمی کردی۔وفاقی کابینہ نے تمام اقسام کی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کردی ہے البتہ ایمبولینس، سکول بس، کچرا اٹھانے والی گاڑیوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔ سرکاری دفاتر کے لیے مشینیں بشمول ایئر کنڈیشنر، مائیکرو ویو، فریج، فوٹو کاپی مشین اور دیگر کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سرکاری افسران کے غیر ضروری بین الاقوامی دوروں، بیرون ملک سے آئے وفود کے علاوہ تمام سرکاری دعوتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
بجلی، گیس اور پانی کے اخراجات میں 10 فیصد کمی منظوری دی گئی ہے۔گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل کی بچت اور صلاحیت بڑھانے کے لیے صوبائی حکومتیں سال میں 2 مرتبہ گاڑیوں کی لازمی ٹیوننگ کے نوٹیفکیشن جاری کریں گی۔ وزیراعظم نے کابینہ ارکان اور حکومتی ارکان کا پٹرول کوٹہ 40 فیصد کم کر دیا ہے، کابینہ کو پٹرولیم کوٹہ میں حکومتی اہل کاروں کے لیے 33 فیصد کمی کی تجویز دی گئی تھی۔ ہفتے کی چھٹی بحال کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اس کے نتیجے میں سالانہ 386 ملین ڈالر کی بچت ہوگی
جبکہ جمعہ کے روز ورک فرام ہوم کی تجویز آئی ہے اور وزیراعظم نے جمعہ کے روز ورک فرام ہوم کی تجویز کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل میں زیر بحث آنے والے اہم نکات اور اِن پر ہونے والے فیصلے بیان کرنے کا مقصد حکومت کی کفایت شعاری مہم کے لیے کاوشیں اور خلوص نیت بیان کرنا ہے۔ وفاقی کابینہ کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو اِن میں بیشتر اقدامات ایسے نظرآئیں گے جو پہلے کبھی کسی سطح پر زیر بحث نہیں ہوئے لیکن اِن کو زیر بحث لانا اشد ضروری تھااور بالآخر کابینہ نے وہ تمام راستے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو شاہ خرچیوں کے زمرے میں آتے تھے اور یہی معاملات عوام بارہا سامنے لاتے تھے۔ سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں زمین آسمان کا فرق ہے ایک اور فرق ماتحت سرکاری ملازمین اور اعلیٰ افسران کے درمیان بھی ہے، اعلیٰ افسران کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، رہنے کے لیے محلوں جیسے گھر، مفت کے نوکرچاکر، قیمتی گاڑیاں، ایندھن اور ایسی بے شمار مراعات انہیں عام پاکستانی اور ماتحت ملازمین سے ’’ممتاز‘‘ ظاہر کرتی ہیںاِس لیے صرف ایندھن کی مد میں ہی کٹ نہ لگایا جائے بلکہ سرکاری افسران کی مراعات پر بھی غور کیا جائے جنہیں سالہا سال کی چھٹی کے باوجود پوری تنخواہ اور تمام تر مراعات ملتی ہیں۔
جہاں تک دکانوں کے اوقات کار مقرر کرنے کا تعلق ہے اور سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ نے دودن کی مہلت مانگی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی بحران سے باہر نکلنے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے تاکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کا اِس کوشش میں حصہ نظر آئے، اگرچہ تاجر برادری پہلے بھی کئی بار ایسے اوقات کار کی پابندی کرنے پر رضامند نظر نہیں آئی لیکن سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غیر معمولی حالات میں ہی غیر معمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کاروباری اداروں کے اوقات کار مقرر کرنے سے کسی کا کاروبار متاثر نہیں ہوگا البتہ اوقات کار کی پابندی کی وجہ سے ہم فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ جہاں تک پٹرول پر ٹارگٹڈ سبسڈی کی بات ہے تو ہم متعدد بار عرض کرچکے ہیں کہ ایک غریب موٹر سائیکل سوار اور قیمتی گاڑی والے میں فرق رکھا جائے بلکہ صرف پٹرول ہی نہیں ہر چیز میں فرق رکھا جائے،
پنجاب حکومت سستے آٹے کی فراہمی کے لیے دو سو ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے لیکن اِس سبسڈی کا فائدہ اٹھانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں سبسڈی کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ہم وفاقی کابینہ کے اِن تمام فیصلوں کو حالات کی ضرورت قرار دیتے ہوئے بالکل درست سمجھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ غیر معمولی معاشی حالات میں ایسے ہی غیر معمولی فیصلے کیے جائیں گے لیکن اِن فیصلوںمیں غریب اور امیر کو فرق کو ضرور سامنے رکھا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button