Editorial

سری لنکا کے سبق آموز حالات

وطن عزیز کے سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے آج ہر پاکستانی انتہائی تشویش میں مبتلا ہے، حالات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جارہے ہیں کیونکہ انہیں سُدھارنے کی عملی کاوشیں ناکافی نظر آرہی ہیں۔ چونکہ ملک میں سیاسی استحکام نہیںاِس لیے معیشت سمیت تمام شعبے متاثر ہورہے ہیںکیوں کہ نظریاتی اختلافات کی جگہ پر مخالفت برائے مخالفت کی سیاست عروج پر ہے ۔ درحقیقت سیاسی اور معاشی امور کے ماہرین بھی پریشان ہیںکہ ملک میں سیاسی استحکام ہوتو  کوئی معیشت کی زبوں حالی کی طرف پوری توجہ مرکوز کرے، فی الحال تو معاشی سدھار نظر آرہا ہے اور نہ ہی سیاسی۔ سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے مارنے کی سازش کی جا رہی ہے ، میں نے اپنی ویڈیوریکارڈ کروائی ہے،اگر مجھے کچھ ہوگا تو میں چاہتا ہوں کہ پاکستانیوں کو پتا چلے کہ کون کون اس سازش میں ملوث تھا اور پتا چلے کہ کس نے سازش کی، میں نے سب کے نام لیے ہیں اِس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ سازش کا ڈرامہ ناکام ہونے پر عمران خان نے نیا شوشہ چھوڑا ہے۔
عمران خان کے پاس شواہد ہیں تو پیش کریں۔ انکوائری کرائی جا سکتی ہے۔ عمران خان کا قتل کی سازش کا دعویٰ امریکی سازش کی طرح فراڈ لگتا ہے اور عمران خان کو وزیراعظم جیسی سکیورٹی دی جارہی ہے۔ متذکرہ صورتحال عام پاکستانی کی وطن عزیز کے لیے تشویش میں مزید اضافے کا باعث ہے ۔ سیاسی حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بات مرنے اور مارنے تک آن پہنچی ہے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے کو بغیر سیاسی رقابت کے، انتہائی توجہ اور دیانت داری سے دیکھنا چاہیے کیوں کہ موجودہ سیاسی اور معاشی حالات میں اب چھوٹی سے چھوٹی غلطی کی بھی گنجائش نہیں اور ہمارے سامنے اب سری لنکا ایک واضح مثال کے طور پر موجود ہے جو معاشی لحاظ سے دیوالیہ ہوچکا ہے اور سری لنکن عوام اب سڑکوں پر عدالتیں لگاکر ملک کو اِن حالات تک پہنچانے والوں کو سرعام سزائیں دے رہے ہیں، سری لنکن فوج کی مخصوص علاقوں میں عمل داری کے علاوہ سری لنکا کے ایک ایک چپے پر عوام اُن لوگوں کو عبرت کا نشانہ بنارہے ہیں جنہوں نے اُنہیں ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھائے لیکن عملاً ملک کو دیوالیہ کردیا،
خطے میں افغانستان کے بعد اب سری لنکا ایسا ملک ہے جہاں قانون کی عمل داری نام کی کوئی چیز نہیں اور بالکل ویسے ہی واقعات ہورہے ہیں جیسے سیالکوٹ اور ڈسکہ میں ہوئے لوگوں نے خود ہی قانون بن کر کسی کو مجرم ٹھہرایا، منصف بن کر سزا سنائی اور جلاد بن کر اُس سزا پر عمل درآمد بھی کردیا، حالانکہ سری لنکا میں سیاسی عدم استحکام نام کی کوئی چیز نہیں تھی اِس کے برعکس بدقسمتی سے ہم سیاسی عدم استحکام سے کبھی باہر آہی نہیں سکے، سیاسی مخالفین کے لیے عدم
برداشت اور ملک و قوم پر اپنے مفادات کو ترجیح دینے کی روش نے ہمارے ہاں کبھی سیاسی استحکام نہیں ہونے دیا لیکن سری لنکا میں تو ایسا کچھ بھی نہیں صرف سیاسی قیادت کے غیردانشمندانہ فیصلوںکے نتیجے میں لنکن معیشت زمین بوس ہوئی، بیرون ملک سے تیل، خوراک اور دوسری اشیا ضروریہ کی خریداری کے لیے خزانے میں ایک پائی نہیں تھی اِسی لیے ملک بھر میں پٹرول کی قلت پیدا ہوئی،
عام شہری کے لیے ایک سے دوسری جگہ پہنچنا محال تو ہوا اس کے ساتھ ہی پٹرول کی قلت سے بجلی کی پیداوار بھی انتہائی نیچے آگئی ، بیرون ملک سے آنے والی اجناس اور ادویات کی خریداری کے لیے خزانے میں ایک پائی نہ تھی۔ سری لنکا کرنسی تیزی سے گراوٹ کا شکار تھی اور ڈالر بلندیوں کو چھورہا تھا اگرچہ ہماری کرنسی بھی تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے اور ڈالر اب تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے مگر سری لنکن کرنسی کی قدر تو سو فیصد سے بھی کم ہوچکی تھی اِس لیے وہاں زیادہ ابتر صورتحال ہوئی، کرونا وبا نے بھی پوری دنیا کی طرح ہمیں اور سری لنکا کو متاثر کیا سری لنکا کے موجودہ حالات بیان کرنے کا مقصد صرف اورصرف سیاسی قائدین اور ارباب اختیار کے دروازوں پر دستک دیکر صرف یہ عرض کرنا ہے کہ معاشی لحاظ سے مضبوط سری لنکا آج دیوالیہ قرار دے دیاگیا ہے، سڑکوں پر عوام جو کچھ کررہے ہیں وہ بھی خوفناک اور سبق آموز ہے، سری لنکا کے ذمےصرف 51بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضے واجب الادا ہیں مگر دو کروڑ آبادی والا ملک صرف اکاون بلین ڈالر قرضے کے باوجود دیوالیہ قرار دے دیا گیا جبکہ ہم بائیس کروڑ پاکستانی اور بے شمار قرضوں کا بوجھ اٹھاکر کیونکر اطمینان کی نیند سو سکتے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں تو سیاسی عدم استحکام بھی اِن دنوں عروج پر ہے، خدانخواستہ یہاں معاشی حالات بگڑے تو بائیس کروڑ لوگوں کو کون سنبھالے گا کیوں کہ ہمارے مسائل کی تعداد اور اُن کا حجم سری لنکا سے کہیں زیادہ اور ہر لحاظ سے حالات گمبھیر ہیں،
سیاسی فتوحات کو جمہوریت حُسن ضرور سمجھا جائے لیکن پڑوسی ممالک اور اُن کے حالات پر بھی نظر رکھی جائے تاکہ ہمیں خبر رہے کہ ہماری اور اُن کی قیادت کی غلطیوں میں مماثلت تونہیں؟ وہ کیا غلطیاں تھیں جن کی بنا پر سری لنکن عوام کو آج یہ دن دیکھنا پڑے اور اُن کی قیادت کا دنیا کے سامنے تماشا بنا ہوا ہے۔ اچھے اور بُرے حالات کا موازنہ ہی ہمیں بتاتا ہے کہ ہم ترقی کی منازل طے کررہے ہیں یا تنزلی کی طرف جارہے ہیں، سقوط ڈھاکہ نے ہماری کمر توڑی اور آج تک وہ زخم تازہ ہیں، بینظیر بھٹو کی شہادت کے وقت آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاکر قوم کو تقسیم ہونے سے بچایا لیکن بدقسمتی سےآج قوم میں واضح تقسیم نظر آرہی ہے، کوئی شعبہ بھی دیکھیں تقسیم در تقسیم ہے، پہلے ہم مسالک میں تقسیم ہوئے پھر سیاسی نظریات کی بنیاد پر اور آج ہم تقسیم کی خطرناک سطح پر پہنچ چکے ہیں، عدم برداشت کا فروغ عام کیا جارہا ہے، لوگوں کو معتدل کی بجائے متشدد بنانے کے لیے ذہن سازی کی جارہی ہے اور بدقسمتی سے یہ کوئی اور نہیں وہی کررہے ہیں جنہوں نے تقسیم در تقسیم قوم کو دوبارہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کی قوم بنانا تھا۔ یہ وقت مرنے یا مارنے کی باتیں کرنے کی بجائے سنگین حالات سے کندھے سے کندھا ملاکر نمٹنے کا ہے، اِس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button