پاکستان کہاں جارہا ہے؟ …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
اس عیدالفطر پر میری پریشانی اور دکھ کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ ہمارا وطن پاکستان خانہ جنگی اور مذہبی انتہا پسندی کے گرداب میں پھنستا ہوا نظر آرہا ہے۔اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ چار روز قبل میری طبیعت نہایت خراب ہو گئی اوریہ کالم بھی شدید بیماری کی حالت میں لکھ رہا ہوں۔ سب سے دعا کی اپیل ہے۔اب کچھ سیاسی حالات پر بات کر لیتے ہیں۔پنجاب میں بالآخر وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا گیا۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جوادالحسن کے حکم کے بعد حمزہ شہباز شریف سے گورنر ہاؤس لاہور میں ایک تقریب میں، جس کی اجازت گورنر پنجاب نے نہیں دی تھی قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے حلف لے کر انہیں وزیر اعلیٰ بنوا دیا۔اس سے پہلے گورنر پنجاب نے سردارعثمان بزدار کے یکم اپریل کو دیئے استعفے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انہیں بطور وزیراعلیٰ پنجاب بحال کردیا جس کے بعد سردار عثمان بزدار نے پنجاب اسمبلی میں اپنی کابینہ کے ساتھ ایک اجلاس بھی کر ڈالا
۔یہ ایک غیر یقینی صورتحال ہے جس کا سامنا پنجاب کے اراکین اسمبلی اور عوام کر رہے ہیں۔ مرکز میں تحریک انصاف کی اکثریتی حکومت کو جوڑ توڑ کے بعد ختم کرنے کے بعد پنجاب میں بھی اکثریتی جماعت کی حکومت کو بذریعہ تحریک عدم اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد عثمان بزدار نے مبینہ استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کیااور سابق گورنر چودھری محمد سرور نے منظور بھی کر لیا تھا جس کے بعد چودھری پرویز الٰہی اور متحدہ اپوزیشن کے حمزہ شہباز شریف کے درمیان وزارت اعلیٰ کے لیے میچ پڑالیکن جو کچھ وزارت اعلیٰ کے انتخاب والے دن پنجاب اسمبلی میں ہوا وہ نہایت افسوسناک تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اپنے ذاتی گارڈز کے ساتھ اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے جنہوں نے ان کو چاروں جانب سے گھیرا ہوا تھا۔
اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی پنجاب اسمبلی میں بھرپور احتجاج شروع ہو چکا تھا اور حکومتی اراکین کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کی طرف لوٹے پھینکے گئے جس پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے اسمبلی میں موجود پولیس کے دستوں کو اسمبلی ہال میں بلا لیا اور پھر خواتین اراکین اسمبلی کے ساتھ پولیس کے جوانوں کی بدتمیزی سے اسمبلی ہال ایسا میدان جنگ بنا جس کی نظیر نہیں ملتی۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اسمبلی ہال میں پولیس نے گھس کراراکین اسمبلی پر تشدد کیا اور وزیر اعلیٰ کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی پر بھی تشدد کیا پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے تحریک انصاف اور قاف لیگ کے اراکین اسمبلی اور امیدوار پر بد ترین تشدد کر کے انہیں اسمبلی ہال سے باہر نکال دیا گیا اور اسمبلی ہال کے دروازے بند کر کے ڈپٹی اسپیکر نے وزیٹرز گیلری میں کھڑے ہو کر ایوان کی کارروائی کے ذریعے ووٹنگ کروائی
جو آئینی ماہرین کے مطابق پارلیمانی نظام اور آداب کے منافی ہے۔
اس کے بعد گورنر پنجاب نے اس یکطرفہ انتخاب پر حلف لینے سے انکار کر دیا اورلاہور ہائیکورٹ کے دو حکم ناموں کے باوجود حلف اس وجہ سے لینے سے انکاری رہے کہ اول تو وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوا ہی نہیں دوسرا ان کا اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسمبلی کے معاملات میں دخل دینے کا اختیار کسی عدالت کے پاس نہیں۔ خیر حمزہ شہباز کا وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد سیاسی بحران شدت اختیار کر چکا ہے کہ ایک جانب گورنر پنجاب ان کے انتخاب کو غیر آئینی قرار دے چکے اور دوسری جانب سردار عثمان بزدار کے استعفے کو مسترد کرکے انہیں بطور وزیراعلیٰ کابینہ سمیت بحال کرچکے لیکن سب سے بڑھ کر پریشانی کا باعث وہ ریفرنس ہے جو تحریک انصاف نے اپنے 26 منحرف اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف الیکشن کمیشن میں داخل کرایا ہے اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن نے اس پر اپنا فیصلہ 30 دن میں دینا ہے۔یہ وہ تمام اراکین صوبائی اسمبلی ہیں جنہوں نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ مل کر بزدار حکومت گرا کر حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنوایا۔ان 26 اراکین صوبائی اسمبلی کی اسمبلی کی رکنیت ختم ہونے کے بعد پنجاب حکومت اکثریت کھو دے گی اور اسی طرح پنجاب حکومت بھی ختم ہو سکتی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ پنجاب اسمبلی بھی ختم ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد سیاسی صورتحال انتہائی مخدوش اور خطر ناک ہو چکی ہے جو کچھ مدینہ منورہ میں ہوا وہ افسوسناک ہے۔ حرمت رسول ﷺپر کوئی بھی مسلمان سمجھوتہ نہیں کر سکتا اور مدینہ منورہ کی پاک اور مقدس سرزمین پر احتجاج درست نہیں لیکن وہاںموجود پاکستانیوں کے اس احتجاج کو تحریک انصاف کے رہنماؤں سے جوڑنا اور پھر پاکستان کے مختلف شہروں میں توہین رسالت ﷺکے مقدمات درج کروانا اور شیخ رشید کے بھتیجے کو اس جرم میں گرفتار کرنا نہایت خطرناک کھیل ہے جو پاکستان کو خوفناک تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے بیانات سیاسی صورتحال کو مزید کشیدہ کر رہے ہیں کیونکہ عید کے بعد تحریک انصاف نے پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسوں کا اعلان اور مئی کے آخر میں اسلام آباد کی طرف ملین مارچ کی کال بھی دے دی ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی حکومت ہٹائے جانے کو بیرونی ہاتھ کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں اور امریکی دفاعی تجزیہ نگار ربیکا گرانٹ کی تازہ ویڈیو نے رجیم چینج کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ تمام و ہی ہیں جن کو پاکستانی سفیر مراسلے میں لکھ چکے ہیں۔
امریکہ کے اس خطہ میںگریٹ گیم کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور کراچی میں بی ایل اے کی جانب سے خود کش دھماکہ میں چینی شہریوں کے ہلاکت نے صورتحال گمبھیر کر دی ہے اور اطلاعات کے مطابق پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے قریبا 2 ہزار کے قریب چینی پاکستان چھوڑ کر واپس جا چکے ہیں۔اس مشکل وقت میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد موجودہ وزیر اعظم اور اتحادی حکومت کی خاموشی بہت کچھ آشکار کر رہی ہے۔ ان بدترین حالات میں حکومت کی جانب سے مذہب کارڈ کھیلنا ایک ایسی آگ کو ہوا دینے کے مترادف ہوگا جو سب کچھ جلا کر بھسم کر سکتی ہے۔ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف بھی مذہبی کارڈ مسلم لیگ نواز نے ہی کھیلا تھا اور سلمان تاثیر کا قتل بھی اسی مذہبی کی وجہ سے ہوا تھا۔پیپلز پارٹی کا اس خوفناک ایجنڈے پر خاموش رہنا میرے لیے حیران کن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں اور یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا،آزادکشمیراورگلگت بلتستان میں حکومتیں قائم ہیں اور اگلے چھ ماہ تک ان کے خلاف عدم اعتماد بھی نہیں لایا جا سکتا۔اگر سیاسی انتقام کا سلسلہ فوری بند نہ کیا گیا تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں بھی ایسی انتقامی کارروائیاں ہو سکتی ہیں جو پاکستان کے عوام، حکومت اور اداروں کو کچھ اس طرح آمنے سامنے کھڑا کر سکتی ہیں کہ شاید پھر حالات کسی کے بھی قابو میں نہ رہیں۔اس میں تو کوئی شک نہیں اور زمینی حقائق بھی یہ ہی بتارہے ہیں کہ موجودہ حکومت میں شامل وزراء خصوصاً علی وزیر اور محسن داوڑ جیسے لوگوں کی حکومتی صفوں میں موجودگی نے عوام کا غم و غصہ بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔پاکستان کی موجودہ صورتحال نہایت خطرناک ہوچکی اور ماضی میں ایران کے حکمران مصدق کی حکومت کو تبدیل کرنے کے بعد والی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ملک میں خانہ جنگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔مقتدر حلقوں اور عدالتوں سے اپیل ہے کہ خدارا اس ملک کو بچا لیں ورنہ سیاسی انتقام اور مذہب کارڈ کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے کے نتائج اتنے خطرناک ہوسکتے ہیں جو ہماری آزادی کو سلب کر سکتے ہیں۔پاکستان کو بچانا ہو گا۔