تازہ ترینخبریںکاروبار

کیا پاکستان میں سودی نظام کا خاتمہ ممکن ہے؟

وفاقی شرعی عدالت نے سود کیخلاف دائر کیس کا 19 برس بعد فیصلہ سناتے ہوئے سود کی تمام اقسام اور سود کے حوالے سے تمام قوانین اور شقوں کو شریعت کیخلاف قرار دیدیا ہے۔

جمعرات کو (رمضان المبارک کے آخری عشرے میں) سود کے نظام کیخلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے اس پر مکمل عملدرآمد کیلئے 5 سال کی مہلت دی اور 31 دسمبر 2027ء تک تمام قوانین کو اسلامی اور سود سے پاک اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا۔

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو جہاں سراہا جارہا ہے وہیں یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے اور ایک سوال عوام کی جانب سے پوچھا جارہا ہے کہ ’کیا ملک کے تمام بینکاری نظام کو غیر سودی بینکاری میں منتقل کرنا ممکن بھی ہے؟۔

اس سوال کے جواب میں میزان بینک کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ احمد علی صدیقی نے سماء ڈیجٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں پورے معاشی نظام کو سود سے پاک کرنا بالکل ممکن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں غیر سودی بینکاری کا پورا اسٹرکچر موجود ہے، 5 بینک ایسے ہیں جو 100 فیصد غیر سودی بینکاری کرتے ہیں جبکہ 17 بینک ایسے ہیں جو سودی بینکاری کے ساتھ اسلامک ونڈوز کے ذریعے آپریٹ کررہے ہیں۔

احمد علی صدیقی کے مطابق مجموعی بینکاری کی تقریباً 20 فیصد پہلے ہی غیر سودی بینکاری میں منتقل ہوچکی ہے، اسٹیٹ بینک کا باقاعدہ اسلامک بینکنگ ڈپارٹمنٹ ہے جو ریگولیشنز سمیت دیگر امور میں متحرک کردار ادا کررہا ہے۔

اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کیا ہوگا؟

معروف معیشت دان اور چیف ایگزیکٹو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں سودی نظام کا خاتمہ تو ممکن ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارا بااثر طبقہ ایسا کرنا نہیں چاہتا، وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے پہلے بھی فیصلہ آیا تھا جس پر عملدرآمد کیلئے ڈھائی سال کا وقت دیا گیا تھا لیکن 30 سال میں اس پر عمل نہیں کیا گیا، اب 5 سال میں بھی ایسا ہونا مشکل نظر آرہا ہے اور ممکن ہے کہ ٹال مٹول سے کام لیا جائے گا۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق غیر سودی بینکاری میں عام لوگوں کا فائدہ ہے، کیونکہ انہیں اپنے ڈپازٹس پر اچھا منافع ملے گا جبکہ سودی بینکاری میں عوام کی رقوم پر معمولی نفع دیا جاتا ہے اور باثر افراد انہی ڈپازٹس پر مال بناتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کا جب پہلے فیصلہ آیا تھا اس وقت اندرونی قرضے 1800ارب روپے تھے جو غیر سودی نظام میں منتقل نہیں کئے گئے، اب یہ قرضے 20 ہزار 600 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، اسی طرح بیرونی قرض بھی اس وقت 35 ارب ڈالر تھا جو اب 130 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے ان قرضوں کو سود سے پاک کرنا ہے جو ناممکن نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں لوگ غیر سودی نظام پر منتقل ہونا نہیں چاہتے، اس لئے مشکل لگ رہا ہے۔

احمد علی صدیقی کہتے ہیں کہ قرضوں کو سود سے پاک کرنا کوئی مسئلہ نہیں صرف نیت ہونی چاہئے۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے اسلامی مالیاتی نظام کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ اس کے مطابق ڈیل کرنے کیلئے بھی تیار ہیں، صرف ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح سکوک، ٹریژری بلز سمیت دیگر غیر سودی آپشنز کا استعمال شروع ہوگیا ہے، قرضوں کو سود سے پاک کرنا کوئی مشکل نہیں۔

معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے کیلئے 5 سال کافی ہے؟

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہا ہے کہ کہتے ہیں کہ پچھلے فیصلے میں ڈھائی سال کی مہلت دی گئی تھی تاہم اب 30 سال گزر چکے ہیں، اب بھی لگتا ایسا ہے کہ اس میں توسیع لیتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کام کرنے کی نیت ہو تو 5 سال میں پورے نظام کو غیر سودی کیا جاسکتا ہے۔

احمد علی صدیقی کے مطابق 5 سال تو کافی عرصہ ہے، ایک سال کے اندر بھی اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے، تمام بینکوں کے پاس اسلامک فنانسنگ کے پراڈکٹس موجود ہیں، اسٹیٹ بینک کے ریگولیشنز بنے ہوئے ہیں نظام کو غیر سودی نظام پر شفٹ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، لیکن اگر سہولت کے ساتھ بھی کرنا ہے تو سالانہ 25 فیصد کا ٹارگٹ مقرر کیا جائے، 4 سال میں شفٹ ہوجائیں گے، پھر بھی ایک سال ہوگا جس میں اس دوران کوئی کمی بیشی ہوگی وہ پوری ہوجائے گی۔

بشکریہ سما نیوز

جواب دیں

Back to top button