Editorial
بجلی بحران پر وزیراعظم کا نوٹس

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے مئی تک لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی کرنے کاحکم دیتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی سخت ہدایت جاری کی ہیں۔ میاں محمد شہبازشریف نے کہا کہ عوام کو جب تک اس عذاب سے نجات نہیں ملتی نہ خود چین سے بیٹھوں گا نہ کسی کو بیٹھنے دوں گا۔ افسران سابق حکومت کی مجرمانہ غفلت کی پیدا کردہ تکلیف سے شہریوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں، تیل وگیس کا بندوبست ہونے تک عبوری اقدامات کو بہتربنایا جائے۔ نوازشریف حکومت نے ملک میں اضافی بجلی کی وافرمقدار فراہم کی تھی مگر عمران حکومت نے ایک نیا یونٹ شامل نہیں کیا، بروقت ایندھن خریدا گیا نہ کارخانوں کی مرمت کی گئی، سابق حکومت نے ہمارے دور کے سستی اور تیز ترین بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ بند کئے، مہنگی اور کم بجلی بنانے والے کارخانے استعمال کئے گئے۔ اس ظلم کی قیمت قوم کو ہر ماہ 100 ارب روپے کی شکل میں ادا کرنا پڑرہی ہے، 6 ارب میں ایل این جی کا جو ایک جہاز مل رہا تھا،
وہ قوم کو20 ارب میں پڑ رہا ہے، عمران حکومت کا یہ ظلم قوم کو اس سال 500 ارب سے زائد میں پڑے گا، توانائی کے شعبے کی تباہی کرکے پاکستان کی معیشت دیوالیہ کرنے کی سازش کی گئی ہے۔وزیراعظم کی ہدایات پر مزید بات کرنے سے پہلے بتانا ضروری ہے کہ ملک بھرمیںلوڈشیڈنگ جاری ہے، شہروں میں9 اور دیہات میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ12گھنٹے تک جاپہنچاہے اور لوگوں کے لیے اِس ماہ مقدس میں سحر و افطارکا اہتمام مشکل ہوچکاہے۔ کراچی میں لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ علاقوں میں بھی چار سے چھ گھنٹے بجلی غائب رہنے لگی ہے جبکہ کئی علاقوں میں بجلی بندش کا دورانیہ 8 سے 15گھنٹوں تک پہنچ چکا ہے۔قریباً ایک دہائی قبل 2013میں شہری علاقوں میں بارہ گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں سولہ سے اٹھارہ گھنٹے روزانہ لوڈ شیڈنگ ہورہی تھی اور بجلی کا بحران ایسا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم میں اِس کو سرفہرست رکھا اور اپنے منشور میں بھی لوڈ شیڈنگ کا فوری خاتمہ شامل کیا۔ جب عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کو حکومت سازی کا موقعہ ملا تو بجلی بحران سے نمٹنے کے لیے بجلی پیداکرنے کے کارخانے لگائے گئے اور قریباً قریباً ساڑھے 11ہزار سے ساڑھے 12ہزار میگاواٹ اضافی بجلی قومی ترسیلی نظام میں شامل کی یوں ملک سے لوڈ شیڈنگ کا ایک طرح سے خاتمہ ہوگیا اِور مسلم لیگ نون اپنے اِس کارنامے کا کریڈٹ ابھی بھی لیتی ہے۔ ذرائع ابلاغ اور ماہرین بتاتے ہیں کہ اس وقت صرف گیس اور تیل بروقت نہ خریدنے کی وجہ سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی بند ہے اور جن کی ذمہ داری تھی انہوں نے بجلی پیدا کرنے کے لیے تیل اور گیس خریدی ہی نہیں یوں قریباً چار سے
ساڑھے چار ہزار میگا واٹ بجلی اس وجہ سے بند ہے، خریداری کیونکر نہیں کی گئی یہ وجہ نہیں بتائی گئی چند روز قبل وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کو ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں کہاگیا کہ بجلی پیدا کرنے والے کئی کارخانے دیکھ بھال اور مرمت بروقت نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں ایک حکومتی شخصیت نے لوڈ شیڈنگ کی تیسری وجہ آئی پی پیز کو عدم ادائیگیاں بھی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی پیداکرنے والے کارخانوں کو 17سو ارب روپے کی ادائیگیاں پچھلی حکومت کے دور میں نہیں کی گئیں تاہم موجودہ حکومت نے بجلی کی طلب و پیداوار کو مدنظر رکھتے ہوئے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر ایل این جی کے دو کارگو اور پیٹرولیم کو منسٹری کو حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایل این جی خریدیں ،ایل این جی اور فرنس آئل آنے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ٹھیک ہوتی چلی جائے گی۔ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ آج اگرکہیں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو وہ بجلی کی پیداوار کی وجہ سے نہیں بلکہ ترسیل کے نظام کی وجہ سے ہو رہی ہے کیوں کہ اوسطاً ترسیل کرنے کی صلاحیت 24 ہزار میگا واٹ ہے اور جب اس صلاحیت سے زیادہ بڑھتے ہیں تو کسی نہ کسی جگہ پر نظام ٹرپ ہونے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور اسی سسٹم کو بچانے کے لیے ٹرپنگ کرنا پڑتی ہے
علاوہ ازیں پی ٹی آئی حکومت بھی سسٹم میں چار ہزار میگا واٹ بجلی شامل کرنے کی دعویدار ہے ۔ پاور سیکٹر کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ نون لیگی پچھلی حکومت نے جو پالیسی بنائی اس کے مطابق پاکستان کو 30 ہزار میگا واٹ بجلی کی ضرورت تھی جبکہ حقیقت میں پاکستان ماہانہ 16 ہزار میگا واٹ بجلی استعمال کرتا ہےاور صرف ایک یا ڈیڑھ ماہ ایسا ہوتا ہے کہ جب طلب 24 سے 25 ہزار میگا واٹ تک جاتی ہے یقیناً شدید گرمی میں یہ نوبت آتی ہوگی مگر کہا جاتا ہے کہ اس محدود عرصے کے بعد بھی حکومت کو تیس ہزار میگا واٹ کے حساب سے پیسے دینا پڑتے ہیں حالانکہ بیشتر مہینوں میں طلب کم اور پیداوار زیادہ ہوتی تھی۔ چند روز قبل بھی وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کو محکمے کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی جس میں تمام خراب پاور پلانٹس اور ان میں نقائص واضح طور پر بیان کیے گئے تھے اور غالباً ان کی تعداد دو درجن سے زائد بتائی گئی جو چھوٹے موٹے نقائص کی وجہ سے بند پڑے تھے۔
ملک میں حالیہ لوڈ شیڈنگ کی وجوہات ہم نے متذکرہ سطور میں بیان کردی ہیں اور یقیناً اِس کے بعد وجوہات اور اِن کے ذمہ داروں کا تعین کرنا مشکل نہیں رہ جاتا، چونکہ وزیراعظم نے بند بجلی گھر چلانے کے لیے فوری طور پر تیل اور گیس درآمد کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں اِس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں لوڈ شیڈنگ کی صورت حال اس طرح ناقابل برداشت نہیں ہوگی ۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی عوام روزے بھی رکھ رہے ہیں اور عید کی وجہ سے نجی شعبہ بھی دن رات کام کررہا ہے لیکن بار بار بجلی کی بندش سبھی کے لیے پریشان کن بنی ہوئی ہے ۔