Editorial

سیاسی عدم استحکام کب ختم ہوگا؟

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی سے قبل حکمران جماعت نے اسلام آباد ڈی چوک میں ’’امربالمعروف‘‘ کے عنوان سے اپنا پاور شو کیا اگرچہ عام طور پر حزب اختلاف ہی حکومت کے خلاف دبائو بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے جلسے یا جلوس کرتی ہے لیکن جب سے حزب اختلاف نے حکمران جماعت کے خلاف متحد ہوکر سیاسی جوڑ توڑ شروع کیا ہے ،وزیراعظم عمران خان بھی ایک طرح سے رابطہ عوام مہم شروع کرچکے ہیں اور خصوصاً ڈی چوک جلسہ بیک وقت کئی مقاصد سمیٹے ہوئے ہے، جس طرح حکمران جماعت نے ملک بھر سے اپنے کارکنوں کو پریڈ گرائونڈمیں جمع کیا اسی طرح حزب اختلاف نے بھی ملک بھر سے اپنی اپنی پارٹیوں کے کارکنوں کو اسلام آباد رخ کرنے کی ہدایت کی ہوئی ہے اور بڑی حد تک اُن کے کارکنان اسلام آباد میں پہنچ بھی چکے ہیں۔
 اب حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے پاور شوز کے موازنے ہوں گے، اسی دوران وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی اور یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حزب اختلاف نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیا ہے، بہرحال ان کا پہلا ہدف وزارت عظمیٰ ہوگی اور شاید اِس کے بعد ہی حزب اختلاف سپیکر اور وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف رخ کرے کیوں کہ فی الحال وزارت عظمیٰ کے معاملے پر ہی صورت حال بتدریج پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پانچ سال، مکمل کرنے کے قریب ہے، اگر حکومت مخالف جماعتیں وزیراعظم عمران خان کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتیں تو یقیناً انتخابی مہم میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا، حکومت اپنی کارکردگی پیش کرتی اور حزب اختلاف اپنی ، اور پھر ووٹرز بیلٹ پیپرزکے ذریعے جسے اور جتنا چاہتے مینڈیٹ دیتے لیکن وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی وجوہات اتنی زیادہ بیان کی جارہی ہیں کہ اصل وجہ کے قریب پہنچنا ممکن نہیں رہا تاہم جو وجوہ زیادہ زیر بحث ہیں ان پر بات کرتے ہیں۔
حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ کو صاف انکار کی وجہ سے وزیراعظم کی کرسی خطرے میں پڑی ہوئی ہے اور حزب اختلاف انہی غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر ہر حد تک جانے پر تلے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کہا جارہا ہے کہ حزب اختلاف والے کرپشن کے مختلف کیسز میں متوقع گرفتاریوں سے خوفزدہ ہوکر حکومت کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں، لیکن حزب اختلاف نے حکومت مخالف تحریک کی وجہ ملکی معیشت کی خرابی اور مہنگائی کو قرار دیا ہوا ہے۔خیر جو بھی اصل وجہ ہوگی وہ کبھی نہ کبھی سامنے تو آجائے گی لیکن پچھلے چند ماہ سے جو سیاسی کشمکش جاری ہے آنے والے دنوں اور مہینوں میں بھی ختم ہونے کی توقع نہیں پس ملک میں بے یقینی کی فضاء بدستور موجود رہے گی،
مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے بازر رہیں گے اور نتیجے میں ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہیں گی۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو عمران خان ایک طرف اعلانیہ رابطہ مہم کا آغازکردیںگے تو دوسری طرف ایوان میں متحدہ اپوزیشن
کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد میں ناکام ہوتی ہے تو وہ آئندہ عام انتخابات تک سڑکوں پر ہی رہنے کی کوشش کرے گی کیونکہ عام انتخابات سے قبل انہی دنوں میں ملک گیر سطح پر انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات تو یہ ہوگی کہ کوئی پنڈال اور کسی مقرر کی تقریر عام پاکستانی کے مسائل سے ہٹ کر نہیں ہوگی مگر درحقیقت اُنہی رہبروں کی مہربانیوںسے آج عام پاکستانی مسائل سے دوچار ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان ہمارا قومی نعرہ بن چکا ہے اور ہر سیاسی پارٹی اِسی کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیلتی ہے اور ان پنڈالوں میں ایک بار پھر یہی نعرہ بیچا جائے گا، اس سے پہلے ایک سوال کا جواب یقیناً درکار ہوگا کہ موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لیے ابتک متحدہ اپوزیشن نے جو وعدے کیے ہیں اُن کا ضامن کون بنے گا اور کون اُن پر عمل درآمد نہ ہونے پر قصور وارٹھہرے گا، ویسے تو آج تک کسی سیاسی جماعت کی قیادت نے اپنی ناکامی تسلیم نہیں کی لیکن اِس سوال کا جواب یقیناً آنا چاہیے کیوں کہ لگ یہی رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹانے کی صورت میں متحدہ اپوزیشن اُن تمام محکموں اور شعبوں کو تالے لگائے گی جن کی وجہ سے وہ حالیہ ساڑھے تین سال سے زیرعتاب رہی ہے جن میں قومی احتساب بیورو (نیب) سرفہرست ہے، پھر مختلف شعبوں میں من پسند’’فیلڈر‘‘ کھڑے کیے جائیں گے اور جب ہمیشہ کی طرح آپس میں پھوٹ پڑے گی تو قبل ازوقت عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے گااورپھر حکومت کے خلاف متحد سبھی جماعتیں الگ الگ ہوکر اپنے اپنے پنڈال سجانا شروع کردیں گی اور جو جتنا’’ہنر مند‘‘ ہوگا وہ من پسند فیلڈرز کی مدد سے ’’میچ‘‘ جیتنے کی اتنی ہی کوشش کرے گا۔ یہ سب کچھ بظاہر اتنا آسان نہیںہوگا کیوں کہ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اقتدار سے باہر رہ کر حزب اختلاف کے لیے زیادہ خطرناک ہوں گے اِس لیے کوئی بعید نہیں کہ ہر طرف سیاست ہی سیاست ہو اور داخلی و خارجی معاملات سب پیچھے رہ جائیںاور عوام آسمان کی طرف دیکھنے پرمجبور ہوجائیں۔
ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ حکومت کی تبدیلی سے نہ تو مہنگائی تھمے گی نہ ہی بجلی اورگیس وغیرہ کی قیمتیں کم ہوں گی اور نہ ہی کہیں سے دودھ یا شہد کی نہر رواں ہونے کی خبر آئے گی کیونکہ وطن عزیز کئی دہائیوں سے جن گرداب کا شکار ہے اُن سے نکلنے کے لیے بھی کئی دہائیاں درکار ہوں گی، ماضی کی حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آج ہم برآمدات کی بجائے درآمدات پر مجبور ہیں، چھوٹی سے چھوٹی چیز ہمیں بیرون ملک سے خریدنا پڑتی ہے، عالمی اداروں کے دہائیوں سے چڑھے قرض بھی اُتارنے ہیں اور اُن کی شرائط پر بجلی اور پٹرول بھی مہنگا کرنا ہے، اِس لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ جو ہم اگلی حکومت سے توقع کررہے ہیں شاید ہماری اگلی نسل کو بھی دیکھنا نصیب نہ ہو۔ مہنگائی پوری دنیا میں بڑھی ہے تو یہاں کیونکر نہ بڑھتی، پٹرول اور گیس کیوں مہنگے نہ ہوتے، ڈیمز بنائے نہیں تو سستی بجلی کہا ں سے آتی ؟ اِس لیے ہرگز توقع نہیں رکھی جانی چاہیے کہ حکومت کی تبدیلی سے ہمارے مقدر بھی بدل جائیں گے اور ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی، اِس لیے فقط اتنی گذارش ہے کہ سیاسی دھینگا مشتی میں وطن عزیز کے داخلی اور خارجی معاملات پر بھی کوئی نہ کوئی ضرور نظر رکھے جو درحقیقت سنجیدہ حلقوں کی فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button