Column

سب کے پاپڑ بِک جائیں گے ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
خبرتو آپ تک دوروزپہلے پہنچ چکی ہے،واقعے سے متعلق ویڈیو کلپ بھی گھرگھرپہنچ چکا ہے، جس میںدیکھاجاسکتا ہے کہ شادی کی تقریب کے شرکاءمختلف ٹولیوں میں کھڑے خوش گپیوں میں مصروف ہیں، والہانہ انداز میں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے، ماتھے چومتے ، قہقہے لگاتے اور ہاتھوں پر ہاتھ مارکر جذبات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ آتی جاتی خواتین کے بارے میں اشاروں ہی اشاروں میں ایک دوسرے کو مطلع کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پھر اچانک کچھ لوگ ایک طرف لپکتے اور ایک شخص کو پیٹنا شروع کردیتے ہیں، شکل و صورت سے مزدور نظر آنے والا شخص اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے مگر کوئی اس کی نہیں سنتا، وہ بے بس و بے کس تنہا ہے جبکہ درجنوں افراد گھونسوں، لاتوں اور تھپڑوں سے اِس پر مردانگی کے جوہر دکھارہے ہیں، تشدد کی تاب نہ لاکر وہ شخص زمین پر گر جاتا ہے پھر چند لمحے بعد بے ہوش ہوجاتا ہے، ہجوم کا غصہ اب بھی نہیں تھمتا، وہ اسے اپنی ٹھوکروں پررکھ لیتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے مضروب کی گردن ایک طرف ڈھلک جاتی ہے، آنکھیں پتھرا جاتی ہیں، اس کی روح پروازکرجاتی ہے اُس پر تشدد کرنے والے مشق ستم جاری رکھتے ہیں، لگتا ہے اِس کے جسم کا قیمہ بناکر ہی چھوڑیں گے، اچانک آواز آتی ہے”روٹی کھُل گئی اے“ ہجوم اُسے چھوڑ کر کھانے کی طرف لپکتا ہے، یہ درد ناک منظر آخری نہیں، اِس کے بعد ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرنے والے کی لاش قریب ہی فرش پر پڑی ہے، مارنے والے پلیٹیں بھر بھر کر لارہے ہیں اور مزے لے لے کر کھانا کھارہے ہیں جبکہ کچھ لوگ شکوہ کرتے سنے جاسکتے ہیں ”یار سالن میں ہڈیاں زیادہ اور بوٹیاں کم ہیں“۔ یہ واقعہ پتوکی کے علاقے میں پیش آیا جہاں شادی کی تقریب میں ایک محنت کش پاپڑ بیچنے آیا، کسی شخص نے الزام لگایا کہ اُس کا گم ہونے والا موبائل فون اِس شخص اشرف سلطان نے نکالا ہے، اِس کے بعد اُس پاپڑ والے کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اُتار دیاگیا، بعد ازاں معلوم ہوا کہ اشرف سلطان بے قصور تھا، گم شدہ فون کہیں اور کسی اور کے پاس سے مل گیا۔
اشرف سلطان کی لاش قریب ہی فرش پر رہی، تقریب میں شامل ہر شخص یوں لگ رہا تھا، جیسے زندگی کا آخری کھانا کھارہا ہے، کسی نے واقعے کو روکنے یا بعد ازاں اشرف کو ہسپتال پہنچانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پولیس کو واقعے کی اطلاع دینابھی ضروری نہ سمجھا گیا۔ تقریب کے اختتام، بل کی ادائیگی اور مہمانوں کی رخصتی کے بعد پولیس تاخیر سے شادی ہال پہنچی، اِس دوران واقعے کا کلپ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوچکا تھا، جسے دیکھ کر ہی قانون کے رکھوالے حرکت میں آئے۔ گمان ہے اگر یہ کلپ نہ بنایا جاتا، سوشل میڈیا پرنہ چلتا تو غریب آدمی کی موت ”اچانک ہارٹ اٹیک“ قرار دے دی جاتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ آئی جی پنجاب بھی متحرک ہیں۔ ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا بھی سن رہے ہیں لیکن ان باتوں میں کوئی بات نہیں ہے، شاید انجام بھی کوئی نیا نہ ہو۔
اب آئیے ایک اور حادثے کی طرف چلتے ہیں جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا لیکن ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ عدالت نے انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کو اپنے اپنے عظیم الشان جلسوںکی اجازت دے دی ہے، دونوں کو الگ الگ مقام پر جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ حکومت کا اعلان ہے کہ بیس لاکھ کے قریب کھلاڑی آئیں گے، جن میں یقیناً خواتین کھلاڑی خاصی تعداد میں ہوں گی۔ خواتین کے کھیلوں کے مقابلے ملک بھر میں جہاں بھی منعقد ہوں وہاں مردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی، اُن کا کھیل صرف تقریب کے مرد مہمان خصوصی یا اُن کے ساتھ آئے ہوئے خاص مرد حضرات ہی دیکھ سکتے ہیں، لیکن سیاسی میدان میںخواتین کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے مردوں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ نصف سے زائد حکومتی وزراءجلسے کے انتظامات میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ حکومت کی نسبت زیادہ جم غفیر اکٹھا کرسکتی ہیں۔ تمام جماعتوں نے اپنے لیڈروں اور کارکنوں کو ہدایات جاری کردی ہیں اور تاکید کردی ہے کہ کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے۔ دونوں جانب سے کارکنوں کو ڈنڈوں سے مسلح کرنے کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کیوں کہ محبت اور جنگ کے بعد اب سیاست میں بھی سب کچھ جائز سمجھاجانے لگا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ڈنڈا برداروں کے ہاتھ میں لکڑی کے اپنے رنگ والے ڈنڈے ہوں گے، جن کے سروں پر احتیاطاً سٹیل کے خول چڑھائے جائیں گے جبکہ مزید احتیاطی تدبیر کے مطابق ڈنڈوں کے سروں پر کیلیں بھی لگائی جائیں گی تاکہ کیلوں سے مرصع ڈنڈوں سے ”سوسنار کی بجائے ایک لوہار کی“ کا کام لیا جاسکے۔
تحریک انصاف ایک رنگا رنگ جماعت ہے، اِس میں مختلف پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگ شامل ہیں، اِن کا پارٹی پرچم تین رنگوں والا ہے، پس فیصلہ کیاگیا ہے کہ سرکاری ڈنڈوں کا مختلف رنگوں سے سنگھار ضروری ہے۔ تیار شدہ ڈنڈے دیکھنے میں خوب بھلے لگ رہے ہیں یہ ڈنڈے بھی ترنگے ہیں۔ ممکن ہے ڈنڈوں کو رنگنے کا فیصلہ اس لیے کیاگیا ہو کہ اب دور بلیک اینڈ وائٹ نہیں بلکہ رنگین ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کسی نے تحقیق کی ہو کہ سادہ ڈنڈے کی ضرب ہلکی جبکہ رنگین ڈنڈے کی ضرب کراری ہوتی ہے پس رنگین ڈنڈے وقت کی ضرورت قرار پائے ہوں، رنگین ڈنڈوں کا ایک اور فائدہ ہے یہ جن کے سروں پر برسیں گے جن کے سرپھٹیں گے، ان کے لہو سے یہ ڈنڈے رنگین نہیں ہوں گے کیوں ان پر پہلے ہی سرخ رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اپوزیشن کے ڈنڈوں میں یہ خامی ہے کہ وہ لہو سے رنگین ہوجائیں گے۔
فریقین اگر اپنے اپنے دعوﺅں کے برعکس اِس تعداد کا ایک چوتھائی حصہ بھی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اِس کا مطلب ہے کہ کم از کم دس لاکھ افراد اسلام آباد میں ہوں گے جن کااسلام آباد سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اسی ہجوم میں درجنوں نہیں، سینکڑوں ایسے افراد بھی پہنچ سکتے ہیں جن کا اس ملک، اِس زمین سے بھی شاید کوئی تعلق نہ ہو، یہ افراد بھی مسلح ہوسکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد ہزاروں تو ہوسکتے ہیں یقیناً لاکھوں نہیں ہوں گے پھر اِن افراد کو کنٹرول کیسے کیا جاسکے گا؟ ایک ذرا سی شرارت، ایک غلط فہمی یا دید دانستہ تخریب کاری کی کوشش سے کتنا بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے، اِس کا صرف ادراک ہی نہیں علاج بھی ضروری ہے۔ بادی النظر میں لگتا کچھ یوں ہے کہ جیسے پتوکی میں مارے جانے والے پاپڑ فروش کی طرح ذمہ داران صرف پاپڑ بیچ رہے ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں وہاں کیا ہوسکتا ہے۔ خیال رہے ہنگامہ یا حادثہ ہوگیا تو صرف ایک پاپڑ فروش اشرف سلطان ہی اِس کی زد میں نہیں آئے گا۔ بے گناہوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ نتیجتاً پاپڑ بک جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button