Column

سوشل میڈیا کے صحافت پر اثرات …. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت ایک مخصوص پہلو سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا مہم کی کامیابی کی صورت میں وجود میں آئی ۔ موجودہ اپوزیشن جماعتیں چونکہ اس مہم میں پیچھے رہ گئی تھیں اس لیے آج وہ اپوزیشن میں دھکے کھا رہی ہیں۔ بیانیے کی اس جنگ میں سب سے بڑا اور کامیاب بیانیہ کرپشن کے خلاف اقدامات اور کرپشن کے خلاف احتسابی عمل تھا۔ بیانیے کی اس سودمند فروخت کے نتائج سے جہاں بہت سے سیاسی سماجی اور دیگر پہلو ظاہر ہوئے ہیں وہاں ایک پہلو یہ بھی نمایاں اور قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا نے صحافت کے شعبے اور مین سٹریم میڈیا پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس موضوع پر بہت ساری تحقیقات اور آراءسامنے آچکی ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ شروع میں جب سوشل میڈیا محض لوگوں کے باہمی رابطے کا ذریعہ ہونے کے کردار سے نکل کر ایک موثر سماجی تبدیلی کے وسیلے کے طور پر سامنے آنے لگا اور لوگ اس پلیٹ فارم پر سیاسی و معاشرتی موضوعات پر مباحث کرنے لگے اور خبر کے لیے بھی اس کی جانب رجوع کیا جانے لگا تو تب یہ تاثر کھل کر سامنے آیا کہ سوشل میڈیا کبھی بھی مین سٹریم میڈیا کا متبادل بن کر صحافت کے شعبے کو خاص انداز میں متاثر نہیں کرسکے گا۔ مگر بعدازاں یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔ آج یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا پر اثرانداز ہوا ہے اور اس نے صحافت کا روایتی تصور بھی بدل دیا ہے۔ اب لوگوں کی بڑی تعداد نہ صرف خبر کے لیے سوشل میڈیا کی جانب رجوع کرتی ہے بلکہ ڈیجیٹل صحافت بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتی ہے۔سوشل میڈیا کی وجہ سے آن لائن صحافت کو فروغ ملا ہے، اخبار و جرائد کی روایتی اشاعت گھٹ گئی اور ملازمین کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

بلاشبہ سوشل میڈیا کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان، جہاں صحافت پر متعدد قدغنیں عائد ہیں اور کئی معتبر صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا سے نکال باہر کیا گیا ہے، وہاں وہ سوشل میڈیا کے توسط سے عوام کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے میں بھی کامیاب ہیں۔ اسی طرح وہ سماجی طبقات جن کی بات کو میڈیا پر دکھانے کی اجازت نہیں وہ بھی سماجی روابط کے ذرائع ابلاغ سے اپنی بات لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں بہت سارے مسائل اور جرائم کے واقعات ایسے بھی سامنے آتے رہتے ہیں جن کے ضمن میں پیش رفت یا ان کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے جانے کے پیچھے سوشل میڈیا کا مسلسل دبا ¶ ہوتا ہے۔ اگر سماجی روابط کے ذرائع ابلاغ کا یہ کردار نہ ہوتا تو کسی کو مین سٹریم میڈیا سے امید نہیں تھی کہ وہاں ان معاملات پر تسلسل کے ساتھ بات کی جاتی اور دبا ¶ ڈالا جاتا۔
پاکستان میں کئی حکومتی اور عدالتی فیصلے سوشل میڈیا کے ثمرات کے شاہد ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا کے کچھ ایسے اثرات بھی ہیں جو منفی کہلاتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں پراپیگنڈا کرنا اور غلط خبریں پھیلانا ایک معمول کا آسان ترین کام ہے کیونکہ اس کے پھیلائے ہوئے پراپیگنڈے پر بہت سے لوگ آسانی سے اور جلد اعتبار کرلیتے ہیں۔ اسی لیے متعلقہ ادارے غلط خبروں کی روک تھام کے لیے قوانین بنا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی حکومتیں بھی اس ضمن میں اقدامات کر رہی ہیں، وہاں جامع منصوبہ بندی کی جاتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اس قباحت کی اصلاح کے نام پر صحافت پر قدغنیں لگانے کا ایک اور سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو جلتی پر تیل کے مترادف معاملہ ہے۔
سوشل میڈیا کے برعکس روایتی میڈیا اور مین سٹریم صحافتی شعبے کا ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جس کی پابندی ہر حال میں ضروری سمجھی جاتی ہے۔ یہی پابندی وہ بنیادی حدِ فاصل ہے جو خبر کے ابلاغ کے اعتبار سے مین سٹریم میڈیا اور صحافتی شعبے کو سوشل میڈیا سے ممتاز بناتی ہے۔ لیکن عملاً اس ضابطہ اخلاق کی پابندی اب کم ہوگئی ہے۔ بالخصوص پاکستان میں سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا اور صحافتی حلقے کا محور بن گیا ہے۔ صرف خبر کے ابلاغ کی بات کی جائے تو اس میں مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا کے ساتھ مقابلے کی کیفیت میں ہے۔ فوری خبر کے ابلاغ کی دوڑ میں بلاتحقیق خبر دے دی جاتی ہے جوکہ عموماً سوشل میڈیا سے لی گئی ہوتی ہے۔ ایسی خبریں بارہا بعد میں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے ایک مالک کو پچھلے سال سوشل میڈیا کی خبر اپنے میڈیا سے پیش کردینے کی وجہ سے عدالت طلب کرلیا گیا اور بعدازاں اس میڈیا مالک نے اس پہ ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا کو گٹر کہہ دیا تھا۔ یقینی طور پر اگر سوشل میڈیا پر خبر اور اطلاعات کا یہ معیار ہوگا تو کوئی بھی ذی شعور عصری حسیت کا حامل شخص اسے گٹر جیسی کسی شے سے ہی تشبیہ دے گا۔
صحافت، کاروبار اور پیشہ دونوں کا نام ہے۔ مگر یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس میں جھوٹ، پراپیگنڈے اور جذباتیت سے احتراز اساسی قدر ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں صحافت، خصوصاً اُردو زبان کا صحافتی شعبہ اس قدر سے آہستہ آہستہ دور اور اس پر سوشل میڈیا کا اثر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ہیش ٹیگز اور وائرل ویڈیوز کے پیچھے بھاگتی مین سٹریم صحافت اپنا مقام کھو رہی ہے۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو خود کو صحافی کہتے ہیں مگر اس شعبے میں ان کی کوئی پیشہ ورانہ صلاحیت، علمی قابلیت، تجربہ اور ضروری مہارت نہیں ہے۔ صحافت کیمرے، تصویریں، بریکنگ نیوز اور مضامین کے دھماکے دار عنوانات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک حساس فن اور محنت طلب سنجیدہ اخلاقی فریضہ ہے مگر سوشل میڈیا پر چند خبری چالاکیاں اور شعبدے پیش کر کے مقبولیت حاصل کر لینے والے چند افراد کو دیکھ کر کئی اہل صحافی بھی اب اس دوڑ میں شریک ہوگئے ہیں جو صحافت جیسے مقدس شعبے کے مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ایک تعداد ایسی بھی موجود ہے جو حقائق تک درست رسائی اور معتبر تجزیے کے لیے مین سٹریم میڈیا اور روایتی صحافتی ذرائع ابلاغ کی طرف رجوع کرتی ہے، مگر سوشل میڈیا کے بڑھتے اثرورسوخ کی وجہ سے اس کی تعداد اب کم ہوتی جارہی ہے۔پاکستان میں مین سٹریم میڈیا اور روایتی صحافت کو حکومتی دبا ¶ اور سماجی رویوں کی خاص ترجیحات کے سبب بقاءکا چیلنج تو درپیش ہے ہی مگر اس کے باوجود اسے اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہیے، صرف ریٹنگ کے حصول اور لوگوں کو متوجہ رکھنے کے لیے روایتی ذرائع ابلاغ اور صحافت کو دا ¶ پر نہیں لگانا چاہیے۔ سوشل میڈیا سے استغنا بھی ناممکن ہے اور نہ ہی اس کے فوائد سے انکار ہے مگر ضابطہ اخلاق کی حدود بہرحال قائم رہنی چاہیے۔یہاں سوشل میڈیا کے ذریعے انسانیت، اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ مذاق کا ارتکاب اکثر انتہائی بے دریغی سے کر دیا جاتاہے۔ حکومتوں اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ کوئی شریف آدمی اس شتر بے مہار کے سامنے آ جائے تو اس کو انتہائی بے مہری اور بے اعتنائی کے ساتھ بداخلاقی اور بے سروپا الزامات اور اور القابات کی ٹکر ماردی جاتی ہے۔ پھر یہ کہ اس ساری پریکٹس کو باقاعدہ طور پر منافع کمانے، مخصوص گروہوں یا پارٹیوں کے مخصوص مقاصد کی تکمیل کرنے حتیٰ کہ حکومتیں بنانے اور گرانے جیسے عوامل کے لیے ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کا ناجائز استعمال کرنے والے سوشل میڈیا ورکرز تو گناہ کے مرتکب ہیں ہی مگر جو سادہ لوح یا پڑھے لکھے اس کے پراپیگنڈے کا شکار ہو رہے ہیں ان کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور سوشل میڈیا پر ملنے والی ہر اطلاع پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کر لینا چاہیے اور نہ ہی کسی ایسے پراپیگنڈے کا حصہ بننا چاہیے جو اس کے ذریعے پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سوشل میڈیا کی اپنی ایک قابل ذکر اور قابل قدر افادیت ہے مگر یہ اسی صورت میں ہے جب کہ بصارت کے ساتھ ساتھ اس کو بصیرت کے ساتھ پرکھا جائے۔ ورنہ سوشل میڈیا کے ذریعے ڈس انفارمیشن اور پراپیگنڈا کرنے والے تو کبھی بھی ہمارے اس مشورے پر عمل نہیں کریں گے اور ناجائز فائدے حاصل کرنے والا جائز مشورے یا اصلاحی تجاویز پر کبھی عمل نہیں کرتا۔

جواب دیں

Back to top button