Column

موتا کے محاسن ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

پیغمبر اسلام ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ مرنے والوں کی خوبیاں بیان کیا کرو(موتا کے محاسن بیان کیا کرو) حدیث نبوی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ایک مسلمان کو مرنے والے دوسرے مسلمان کی برائیوں کی بجائے اس کی خوبیان بیان کرنی چاہئیں،نہ کہ فوت ہونے والوں کے مرقد پر جا کر انہیں برا بھلا کہا اور نعرے بازی کرنی چاہیے۔ جب انسان اگلی دنیا کو سدھار جاتا ہے تو اس کا معاملہ اللہ سبحانہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ کسی نے زندگی میں اچھا یا برا کیا ہو ، تو بھی اس کے مرنے کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کی قبر پر جا کر نعرے بازی کرے اور مرنے والے کو برا بھلا کہے۔ ہم مسلمانوں کا اس پر یقین اور ایمان ہے ہمیں مرنے کے بعد بارگاہ خداوندی میں اپنے گناہوں کی جواب دہی دینا ہوگی۔ آقائے دوجہاںﷺ نے قبروں پر جا کر مرنے والوں کے لیے دعاﺅں کا حکم فرمایا ہے۔کسی مسلمان کویہ زیب نہیں دیتا وہ کسی دوسرے مسلمان کی قبر پر جا کر غیر شائستہ زبان استعمال کرے یا کسی قسم کی نعرہ بازی کرے۔

سابق چیف آف آرمی سٹاف اور صدر مملکت جنرل ضیاءالحق کو دنیا سے گئے کئی عشرے گذر چکے ہیں۔ قارئین !جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ جنرل ضیاءالحق کی شہادت ایک فضائی حادثے میں ہوئی ۔ ان کے ساتھ پاکستان آرمی کے اور بھی بہت سے افسران شہید ہوئے ۔ شہید صدر کے صاحبزادے محمد اعجاز الحق نے تھانہ مارگلہ اسلام آباد میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے خلاف درخواست دی ہے کہ لانگ مارچ کے دوران پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ان رہنماﺅں کی ایماءپر شہید صدر کے مزار پر ہلڑ بازی کی اور غیر اخلاقی نعرے لگائے جس پر مارگلہ پولیس نے وائرل ہونے والی ویڈیو کی فرانزک کا عمل شروع کردیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق نعرے بازی کوئی جرم نہیں بنتا ، البتہ مزار کے تقدس کا معاملہ قانونی ہے جس کی پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے پبلک مقامات پر نعرے بازی کوئی جرم نہیں لیکن کسی کی قبر پر جا کر نعرے بازی کرنا کیاجرم نہیں ؟یا اس ضمن میں قانون خاموش ہے؟ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب پر قبروں کاتقد س واجب ہے۔جب اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ مرنے والوں کی خوبیاں بیان کرو جس کے بعد ہمیں یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ کسی دشمن کی قبر بھی ہو تو اس پر جا کر نعرے بازی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ ہماری سیاست میں جو اس وقت گند گھولا جارہاہے اس میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیںہے۔ ایک دوسرے کے خلاف نازیبا کلمات روزمرہ کا معمو ل بن گیا ہے۔ صحیح بخاری آیت نمبر 458 میں آیا ہے کہ ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتے تھے۔ ایک دن اس کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ ﷺنے اس کے متعلق دریافت فرمایا ۔لوگوں نے بتایا کہ وہ تو انتقال کر گئی ہے ۔ نبی آخر الزمان ﷺ نے فرمایا کہ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ پھر آپﷺ اُس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس پر نماز پڑھی۔ ایک اور حدیث ہے کہ صحابہ کرام ،ؓ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے ۔آپ ﷺ قبر کے کنارے بیٹھ کر اس قدر روئے کہ زمین تر ہوگئی۔ پھر صحابہ ؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا اس دن کی تیاری کرو۔ دین اسلام میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق احکام موجود ہیںجہاں انسانی زندگی میں ایک انسان کی حرمت ہے اسی طرح مرنے کے بعد حق تعالیٰ نے انسانی جسم کے لیے ایک خاص احترام رکھا۔ جیسا کہ مرنے کے بعد میت کو غسل اور کفن دفن کو ہر مسلمان پر واجب قرار دیا ہے۔میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کی زیارت کو سنت قرار دیا گیا ہے۔سرور کونین ﷺ جنت البقع تشریف لے جایا کرتے اور اہل قبور کو سلام اور ان کی مغفرت کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے۔ہم کیسے مسلمان ہیں جو سمجھتے بوجھتے اس طرح کی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے جیالوں کی اس حرکت سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیاسی جماعتوں میں اخلاقی اور مذہبی اقدار کا بڑا فقدان ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جنرل ضیاءالحق کے اہل خاندان اور ان کے چاہنے والوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنے کارکنوں کو اس قسم کی حرکات سے باز رکھنا چاہیے ۔ ہم سب نے جلد یا بادیر مرنا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے شرکاجوجب ڈی چوک جانا تھا، انہیں نہ جانے کیسے شہید ضیا ءالحق کے مزار پر جانے کی سوجھی۔ سیاسی مخاصمت کو ہمیں سیاست تک محدود رکھنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو شہید کے مزار پرہلڑ بازی اور غیر اخلاقی نعرے بازی سے کیا حاصل ہوا ہے؟ ملکی سیاست میں غالباً یہ پہلا موقع تھا جب کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں نے کسی کی قبر پر جا کرغیراخلاقی اور غیر شائستہ حرکت کی ہوجو ہمارے معاشرے کے عموعی رویے سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیںکہ اس طرح کی حرکت پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر نہیںہوئی ہو گی۔ قبروں پر جا کر اس طرح کی غیر شائستہ حرکات ہوتی رہیں تو مستقبل میں مرنے والوں کی قبروں پر جاکر نعرے بازی کرنے کی روایت بن جائے گی۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنی پارٹی کے کارکنوں کو سیاست کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات سے بھی روشناس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل قریب میں اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ محمد اعجاز الحق کی درخواست پر اسلام آباد پولیس نے تحقیق کا آغاز کر دیا ہے جس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ پولیس ان عناصر کا پتہ چلانے میں دیر نہیں کرے گی جنہوں نے شہید ضیاءالحق کے مزار پر جانے کے بعد نعرے بازی کی۔ ضیاءالحق اپنے گیارہ سالہ دور میں اسلامی نظام کا نفاذ تو نہ کرسکے البتہ ان کے دور میں نافذ کئے گئے حدود و قصاص کے قوانین پر آج تک عمل جاری ہے۔ سرکاری دفاتر میںباجماعت نمازکا اہتمام ان ہی کے دور میں ہوا تھا۔

جواب دیں

Back to top button