عدم اعتماد، اپوزیشن کو اعتماد نہیں …. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
حکومت واپوزیشن کے درمیان رسہ کشی جاری ہے۔وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کا دعویٰ ہے کوئی مائی کا لعل حکومت گرا نہیں سکتا بلکہ وہ حکومت بنانے اور گرانے کے ماہر ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد لانگ مارچ کے بعد لائی جائے گی۔کچھ عرصہ پہلے ان کا بیان تھا لانگ مارچ کا مقصد عوام کو بیدار کرنا ہے ۔ان کی پارٹی کے چیئرمین کابیان ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے عدم اعتماد48 گھنٹے میں لانے کا جودعویٰ کیا تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ ابھی تک اپوزیشن نہ تو سپیکر اور نہ ہی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کے مشاورتی اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے میں پر اعتماد نہیں بلکہ اسے اس مقصد میں کامیابی کے لیے حمایتی ارکان پر شکوک وشہبات ہیںوگرنہ جس طرح اڑتالیس گھنٹوں میں عدم اعتماد لانے میں اپوزیشن کے راستے میں کون سی مشکلات حائل تھیں۔
جہاں تک اپوزیشن کا عدم اعتماد لانے کا تعلق ہے یہ مسلمہ حقیقت ہے اراکین اسمبلی خواہ حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے وہ دلی طور پر نہ تو عدم اعتماد کے حامی ہیں اور نہ ہی استعفے دینے کے حق میں ہیںجس کی وجوہات میں بڑی وجہ یہ ہے جب کوئی رکن اسمبلی منتخب ہوتا ہے اسے اپنی انتخابی مہم پر لاکھوں نہیں کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔پارلیمنٹ میں آنے کے بعد لاکھوں روپے ماہانہ الاﺅنس، پرکشش رہائش اور میڈیکل کی سہولتوں کے علاوہ اور بہت سے مراعات ملتی ہیں۔ اگر کوئی رکن کسی قائمہ کمیٹی کاچیئرمین بن جائے تو اسے پرائیویٹ سیکرٹری اور دیگر عملہ کے ساتھ کار کی سہولت بھی مہیا کی جاتی ہے۔ اب جب کہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں وقت ہی کیا رہ گیا ہے ۔اراکین پارلیمنٹ عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے کر سرکاری مراعات اور مشاہروں سے محروم ہو سکیں۔کسی کو کیا پڑی جو اتنی مراعات چھوڑ کر عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے۔ درحقیقت مشکلات تو ان دو خاندانوں کی ہیں جن کے خلاف نیب میں مقدمات چل رہے ہیں۔ مولانا کی مشکل اپنی جگہ ضرور ہے کہ نہ تو وہ پارلیمنٹ میں ہیں اور نہ ہی کسی سرکاری عہدے پر فائز ہیں۔
پیپلز پارٹی جو پہلے پنجاب میں عدم اعتماد لانے کی حامی تھی اب وفاق میں عدم اعتماد لانے کے لیے پی ڈی ایم کی ہمنوا بن گئی ہے ۔ عدم اعتماد کامیاب ہو یا نہ ہو اپوزیشن اس حد تک کامیاب ضرور ہو ئی ہے اس کے عدم اعتماد کے شور غوغا نے حکومت کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹا کرحکومت کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔مان لیا اپوزیشن کوحکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہے تو پھر دیر کسی بات کی ہے۔ دراصل پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی حامی نہیں ہے بلکہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ رہنے کی خاطر پارٹی کے قائد آصف علی زرداری عدم اعتماد کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت لینے چل نکلے ہیں۔پیپلز پارٹی کا حکومت کو دباﺅ میں لانے کے دو مقاصد ہیں جن میں سب سے بڑا مقصد اپوزیشن میںرہ کر سندھ میں اقتدا ر کرنے کے ساتھ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کو کسی طرح طوالت دینا ہے ۔ شریف برادران اور زرداری جان چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کسی صورت میں این آر او دینے کے لیے تیار نہیں ۔اپوزیشن رہنماﺅں کے وقفے وقفے سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اس امر کا غماز ہیںوہ ابھی تک عدم اعتماد لانے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
سیاسی تاریخ میں کم ازکم پہلی مرتبہ مقتدر حلقوں کی مداخلت کے خدشات کو اپوزیشن رہنماﺅں نے رد کرکے سیاسی کھیل کو غیر جانبدارانہ قرار دیا ہے ورنہ تو مقتدر حلقوں پر الزام تراشی حکومت مخالف جماعتوں کا وتیرہ تھا۔ اب سوا ل یہ ہے وزیراعظم عمران خان کے جانے کے بعد اس بات کی کیا گارنٹی ہے آنے والی حکومت ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال سکے گی۔نئے سیٹ اپ میں وہی گنے چنے چند سیاست دان ہوں گے جو اس ملک کے غریب عوام کا مقدر ٹھہر چکے ہیں۔ عوام نے بھی ایک نئی حکومت کا تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے کم ازکم وزیراعظم عمران خان اپنے طور پر ملک کی بگڑی ہوئی معاشی حالت کو سنبھال دینے کے لیے کوشاں ہیں۔پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے شرکاءاسلام آباد آکرحکومت کے خلاف تقاریر کرکے چلتے بنیں گے۔ جے یو آئی ،اے این پی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے شرکاءکا استقبال کرنے کی نوید دی ہے۔ لگتا تو یونہی ہے کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی دارالحکومت سے نامراد لوٹیں گے۔ وزیراعظم کو بھی اپنی تقاریر میں اپوزیشن کو اور بدظن نہیں کرنا چاہیے بلکہ آئینی طور پر جو فورم بنے ہیں ان میں رہتے ہوئے اپوزیشن کا مقابلہ کرنا چاہیے۔عوام کو اب تو اچھے اور برے حکمرانوں میں تمیز کرنا چاہیے جن جن سیاست دانوں نے ملک و قوم کو لوٹا ہے آئندہ انتخابات میںانہیں مسترد کر دینا چاہیے تاکہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ ایک اہم بات یہ ہے حکومت خواہ کسی جماعت کی ہو عوام آٹا، چینی، گھی اور دیگر ضروریات زندگی کی سستے داموں فراہمی کی امید باندھے ہوتے ہیں حالانکہ انہیں مہنگائی کے مقابلے میں مجموعی طور پر ملک کی ترقی کو دیکھنا چاہیے ۔جب ملک غیر ملکی قرضوں سے نجات پا لے گا تو خوشحالی عوام کا مقد ر بنے گی۔ سیاست دان ماضی کی طرح آئندہ بھی ملک و قوم کو لوٹتے رہے تو ترقی ایک خواب بن جائے گا۔ ماضی کے حکمرانوں سے کوئی پوچھے وہ اتنی مال ودولت کہاں سے لائے جو انہوں نے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدایں خرید لیں ۔ وزیراعظم عمران خان کا شاید یہی ایک قصور ہے جو اپوزیشن انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں بلکہ وہ وزیراعظم کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کی شدت سے منتظر ہے ۔حکومت رہے یا نہ رہے وہ وقت دور نہیں جب عوام کو ملک لوٹنے اور سنوارنے والے حکمرانوںبارے علم ہو جائے گا۔