Column

روس یوکرین تنازعہ اور پاکستان ….. مظہر چوہدری

مظہر چوہدری
دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کی جانب سے افغانستان میں شروع کی گئی جنگ کو ختم ہوئے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت روس نے یوکرین پر فوجی حملہ کر دیا ہے۔ اکیسویں صدی کے بالکل آغاز میں امریکہ نے نائن الیون کے حملوں کا بدلہ لینے کی غرض سے افغانستان پر جنگ مسلط کر ڈالی جس کے اثرات نے گذشتہ دو دہائیوں تک افغانستان سمیت پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا جب کہ ایک ہفتہ قبل روس نے ماضی میں اپنا حصہ رہنے والے ملک( یوکرین) کی نیٹو میں شمولیت کو روکنے کے لیے یوکرین پر باقاعدہ حملہ کر دیا جس نے یوکرین کے ساتھ ساتھ یورپ کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اگرچہ افغانستان میں دو دہائیوں تک جنگ جاری رہی لیکن اس کے اثرات زیادہ تر دو ممالک افغانستان اور پاکستان تک محدود رہے لیکن گذشتہ ہفتے سے جاری یوکرین بحران کے باعث اب پورے یورپ میں طویل مدتی معاشی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری کے خطرات بڑھ چکے ہیں۔افغانستان میں جنگ امریکہ اور نیٹونے مل کر لڑی لیکن روس، یوکرین جنگ امریکہ اور نیٹو کے خلاف سمجھی جا رہی ہے۔اگرچہ امریکہ اور نیٹو ابھی تک لڑائی میں باقاعد طور پرنہیں کودے لیکن وہ فوجی، مالی اور سفارتی سطح پر یوکرین کی بھر پور امداد کے لیے کوشاں ہیں۔امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین کو فوجی و مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی کو دیکھتے ہوئے اس بحران کے طول پکڑنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
یوکرین میں سامنے آنے والی جنگ اچانک نمودار نہیں ہوئی بلکہ اس بحران سے قبل کئی ماہ تک روس، یوکرین کی سرحد پر فوج جمع کر رہا تھا۔ یوکرین پر فوجی حملہ کرنے سے بہت پہلے روس نے امریکہ اور یورپی ممالک سے مطالبات کیے تھے کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے کی کوششیں ترک کر دی جائیں، یوکرین میں سٹریٹیجک ہتھیاروں کو نصب نہ کرنے کی گارنٹی دی جائے اور یوکرین اور نیٹو1997 ءسے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلے جائیں لیکن امریکہ اور نیٹو کی جانب سے ان مطالبات کو مسترد کیا گیا ۔یوکرین میں روس کے حالیہ اقدام کو سمجھنے کے لیے ہمیں 8سال پیچھے جانا ہوگا۔8سال قبل یوکرین میں ماسکو نواز یوکرینی صدر وکٹریانوکووچ کو مغرب کی حمایت سے ہونے والے ایک عوامی احتجاج کے نتیجے میں بے دخل کر دیا گیا ۔ صدر وکٹریانوکووچ کی اقتدار سے بے دخلی کی بنیادی وجہ یورپی یونین کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھنے کے خیال کو مسترد کرنا بنی تھی۔بڑے پیمانے پر سامنے آنے والے احتجاجی مظاہروں میں عوام کے ساتھ ساتھ امریکی حکام اور سیاستدان بھی شامل تھے۔ روس نے یوکرین میںلائی جانے والی اس تبدیلی کے خلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے چند ہی ہفتوں بعد نہ صرف یوکرین پر حملہ کرکے کریمیا پر قبضہ کر لیا بلکہ مشرقی یوکرین میں روس کے حامی باغیوں کی حمایت بھی کی ۔ حالیہ حملے میں روسی افواج کو مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر قبضہ دو علاقوں میں داخل ہونے کا حکم اورانہیں آزاد علاقوں کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
یوکرین میں روسی مداخلت خاص طور پر فوجی حملے کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ یوکرین کے معاملے پر روس کے مطالبات کو مسترد کرکے اس کے پاس فوجی حملے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہنے دیا گیا۔ روس کا موقف ہے کہ امریکہ 1990میں کیے گئے اپنے وعدے سے انحراف کرتے ہوئے سویت یونین سے الگ یا زیر اثر کئی ریاستوں کو نیٹو اتحاد میں شامل کراچکا ہے اور اب نیٹو ممالک سے مل کر یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کرانے کے کی سازش کر رہا ہے۔ 1990میں گوربا چوف اور ڈبلیو بش کے درمیان ہونے والی بات چیت کے ریکارڈ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سوویت یونین کو متعدد مرتبہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ نیٹو مشرقی یورپ کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گالیکن بش کے بعد آنے والے امریکی صدور نے نیٹو کو توسیع دینے کی کوششیں شروع کیں۔روس کی تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ یوکرین کے مغربی حصے کی تاریخ مشرقی حصے سے بالکل مختلف ہے۔یوکرین کی مشرقی آبادی کے ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور یہاں رہنے والی زیادہ تر آبادی آرتھوڈوکس ہے اور روسی زبان بولتی ہے۔یوکرین کا مغربی حصہ صدیوں تک یورپی طاقتوں جیسے پولینڈ اور آسٹروہنگیرین سلطنت کے زیر اثر رہاہے اور یہاں کے رہائشی کیتھولک ہیں اور اپنی زبان بولتے ہیں۔ماہرین کے مطابق مشرقی حصے میں آباد لوگوں کی اکثریت روس کی طرف جانے یعنی یوکرین سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ زیادہ امکانات یہی ہیںکہ روس مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر قبضہ دو علاقوں سمیت مشرقی یوکرین کا روس سے الحاق ممکن بنا سکتا ہے۔2014میں روس نے یوکرین کے علاقے کریمیا کو بھی الحاق سے روس کا حصہ بنا لیا تھا۔اگرچہ امریکہ نے روس کو یوکرین کے معاملے پر کریمیا جیسا قدم اٹھانے سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہے تاہم روس کی جانب سے ایسی تنبیہ کو خاطر میں لانے کے امکانات کم ہی ہیں۔
روس یوکرین تنازعہ پر پاکستان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ دونوں ملکوں میں سے کسی کے موقف کی حمایت نہ کرے اور ابھی تک پاکستان نے ایسا ہی کیاہے۔اگرچہ یورپی یونین،برطانیہ، ناروے، آسٹریلیا ، ترکی اور کینیڈا سمیت مختلف ممالک نے پاکستان پر یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرنے پر زور دیا ہے تاہم فی الوقت پاکستان اس معاملے میں خاموش ہی ہے۔ اقوام متحدہ میں روسی حملے کی مذمت کے حوالے سے ہونے والی رائے شماری میں پاکستان کے علاوہ بھارت اور متحدہ عرب امارات نے بھی حصہ نہیں لیاتھا۔ چین بھی اس معاملے میں غیر جانب دار رہنے کا اعلان کر چکا ہے۔مشکل ترین وقت میں پاکستانی وزیراعظم کا روس کا دورہ ملتوی کرنے کی بجائے روس جانا اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان امریکہ سمیت کسی بھی ملک کی پرواہ کیے بغیر روس کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بنانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔پاکستان مستقبل قریب میں روس سے گندم اور گیس درآمد کرنے کا خواہاں ہے جب کہ امریکہ اور یورپی یونین روس پر سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔کئی ایک یورپی ممالک روس سے گیس لینے کے معاہدے بھی ختم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں حالانکہ روسی گیس انہیں بہت سستی پڑتی ہے۔یورپی ممالک اپنی تیل اور گیس کی قریبا 60فیصد ضروریات روس سے پوری کرتے ہیں۔ روس پر سخت پابندیوں سے روس سے کہیں زیادہ نقصان یورپی ممالک کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔اسی طرح روس پر پابندیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں تیل کی رسد متاثر ہونے سے تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے مہنگائی کا طوفان آ سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button