تہران کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جس میں کچھ اہم معاملات ابھی بھی طےکرنا باقی ہیں۔
ڈان اخبار میں خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی شائع رپورٹ کے مطابق 2015 کے معاہدے میں ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے کے بدلے پابندیوں میں ریلیف کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا یکطرفہ طور پر اس سے پیچھے ہٹ گیا۔
ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں مشغول مغربی طاقتوں نے گزشتہ ہفتے کہا کہ معاہدہ طے پانا ممکن ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گیند اسلامی جمہوریہ ایران کے کورٹ میں ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ مذاکرات ایک نازک اور اہم مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے عمان کے اپنے ہم منصب سید بدر البصیدی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں امید ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے حقیقت پسندی کے ساتھ مذاکرات میں دیگر کچھ حساس اور اہم معاملات آنے والے دنوں میں طے ہو جائیں گے۔
حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ وہ معاہدے کے بارے میں پرامید ہیں، جبکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران مذاکرات میں اپنی ‘سرخ لکیروں’ سے دستبردار نہیں ہوگا، انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔
ویانا مذاکرات نومبر میں دوبارہ شروع ہوئے جس میں ایران کے ساتھ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس براہ راست اور امریکا بالواسطہ شامل ہیں۔
حالیہ دنوں میں فرانس، جرمنی، امریکا اور حتیٰ کہ ایران کی جانب سے بھی مذاکرات میں پیش رفت کی اطلاع دی گئی۔
گزشتہ ہفتے معاہدہ طے پانے کے آثار اس وقت سامنے آئے جب فرانس نے خبردار کیا کہ ایران کے پاس معاہدے کو قبول کرنے کے لیے صرف چند دن باقی ہیں۔
فرانس کے وزیر خارجہ جین یوزلی ڈریان نے کہا کہ یہ ہفتوں کی نہیں صرف چند دنوں کی بات ہے۔
انہوں نے 16 فروری کو فرانسیسی سینیٹ کو بتایا کہ ہم ایران سے سیاسی فیصلے چاہتے ہیں، ان کے پاس بہت واضح انتخاب موجود ہے۔
دو دن بعد جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ یہ عمل ‘سچائی کے لمحے’ تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کا موقع ہے جو پابندیوں کو ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ مذاکرات اب بھی معطل ہو سکتے ہیں۔
ایران کے دیرینہ حلیف اسرائیل نے اس حوالے سے اتوار کے روز کہا کہ ایک معاہدے پر جلد اتفاق ہو سکتا ہے، ساتھ ہی اسرائیل نے خبردار کیا کہ یہ معاہدہ 2015 کے اصل معاہدے سے کمزور ہوگا۔