Column

بات بیساکھیوں پر جا رُکی؟ ….. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

فروری شروع ہوتے ہی ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں روز بروز تیزی آتی جار ہی ہے۔حکومت بدلنے کے لیے پیپلز پارٹی کے قائد اور سابق صدر آصف علی زرداری کچھ زیادہ ہی سرگرم ہیں۔چوہدری برادران سے اِنہوں نے ملاقات کرکے اِنہیں حکومت کے خلاف ساتھ دینے کے لیے قائل کرنے کی پوری کوشش کی اور اِنہیں پنجاب میں بڑے عہدے کی پیش کش کی ۔چوہدری برادران کی سیاست اصولوں پرمبنی ہے، شریف برادران کو فارختی دیئے اِنہیں زمانہ بیت گیا ہے۔ ہم چوہدری شجاعت کی اِس بات سے متفق ہیں جو انہوں نے آصف علی زرداری کو یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ پی ڈی ایم کے اندر اپنے اختلافات ہیں۔مسلم لیگ (ن) کی سی ای سی نے تمام فیصلوں کا اختیار نواز شریف جبکہ سیاسی رہنماﺅں سے رابطے کا ٹاسک میاں شہباز شریف کو دے دیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کا حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے میاں شہباز شریف کو سیاسی رابطوں کے لیے ٹاسک دینا تو سمجھ میں آتا ہے جب کہ دوسری طرف ایک ٹی وی ٹاک پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے سنیئر رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا واویلا ہے ”جس روز بیساکھیاں ہٹ گئیں حکومت کے خلاف عدم اعتماد ہو جائے گا“ لہٰذا ایک ہی جماعت کے دو سنیئر رہنماﺅں کے بیانات مسلم لیگ (ن) کی کمزوری کے عکاس ہیں۔شاہد خاقان عباسی کے بیان سے کچھ اِس طرح کا تاثر ملتا ہے کہ اِن کی جماعت کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے میں بداعتمادی کا سامنا ہے۔شاید اِسی لیے چوہدری شجاعت حسین نے آصف زرداری سے کہا ہے کہ پی ڈی ایم میں بھی اختلافا ت ہیں ۔ پی ڈی ایم کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں خاصی مشکلات کاسامنا ہے۔

پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی تیاریوں میں تھی کہ پارٹی قائد عدم اعتماد لانے کے لیے قریہ قریہ سرگرم ہیں۔ بات وہیںرکتی ہے کہ اگر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے پر اعتماد ہوتا تو وہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے میں ذرا دیر نہ کرتے اور کہہ دیتے کہ نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کو حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی اجازت دے دی ہے۔بھئی نواز شریف کی طرف سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اجازت تو اِسی روز دے دی گئی تھی جب شریف برادران کے خلاف نیب مقدمات شروع ہوئے تھے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر اختلافات جمہوری عمل کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ملکی سیاست میں غیر ضروری بیانات روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ایک جماعت کا کوئی عہدے دار کوئی بیان دیتا ہے تو اِسی جماعت کے دوسرے عہدے دار کی طرف سے اِس کے بیان کی نفی ہوجاتی ہے۔ سینیٹ میں سٹیٹ بنک ترمیمی بل کے موقع پر اپوزیشن کو ایون بالا میں اکثریت کے باوجود جس جگ ہنسائی کا سامنا ہوا اِس لیے بہت کم امید کی جا سکتی ہے کہ پی ڈی ایم یا پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔درحقیقت اپوزیشن کو اپنے ارکان پر پورا اعتماد نہیں کہ وہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد میں اِن کا سا تھ دیں گے۔ جیسا کہ میاںشہباز شریف کو اِس مقصد کے حصول کے لیے سیاسی جماعتوں سے رابطے کا ٹاسک دیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے حکومت کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد جلد لائے جانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

چند روز قبل پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شا ہ کا بیان نظر سے گزرا، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ حکومت گرانے کے لیے نہیں بلکہ عوام کو بیدار کرنے کے لیے ہے۔ ہم شاہ جی کے بیان سے متفق نہیں ۔عوام تو پہلے سے بیدار ہیں یہ اِن کی بیداری کا نتیجہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے تیار نہیں۔اگر عوام بیدار نہ ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ پیپلز پارٹی عوام کو حکومت کے خلاف بیدار کرنے کی خواہاں ہے۔حالیہ وقتوں میں ملک کے عوام میں جس قدر بیداری آئی، اگر ماضی میں عوام اتنے بیدار ہوتے تو وہ انتخابات میں راست باز نمائندوں کا انتخاب ضرور کرتے۔ اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف بامقصد تحریک چلانا وقت کی ضرورت ہے ۔اگرچہ عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے۔ گذشتہ ادوار میں بھی مہنگائی تھی مگر موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی عروج پر ہے جسے کنٹرول کرنے میں حکومت ناکام ہوچکی ہے، اگر اپوزیشن کی تحریک مہنگائی کم کرنے کے لیے ہوتی تو عوام بھرپور اِن کا ساتھ دیتے، مگر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک کا مقصد عوام کی سمجھ میں آگیا ہے، اِسی لیے وہ لانگ مارچ میں اِن کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) کو اپنے مارچ میں شرکت کی دعوت دینا اِسی سلسلے کی کڑی ہے کیوں کہ عوام کسی جماعت کے لانگ مارچ میں شرکت سے قاصر ہیں۔اَب حکومت کا وقت ہی کتنا رہ گیا ہے جو اِس کے خلاف عدم اعتماد لائی جائے گی۔سچ تو یہ ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا مقصد اپنے خلاف نیب مقدمات سے خلاصی کے سوا اور نہیں۔ اپوزیشن جماعتیں کب تک عوام کو بیوقوف بناتی رہیں گی۔عوام کو علم ہے کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ سے مہنگائی کم ہونے کا کوئی اِمکان نہیں۔حکومت کو بھی جن سیاست دانوں کے خلاف نیب مقدمات ہیں ، اِن کے جلد فیصلوں کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں ۔مقدمات عدالتوں میں التواءمیں رہنے کا فائدہ کرپٹ سیاست دانوں کو ہوتا ہے۔اَب وقت آگیا ہے کہ حکومت اپنی پوری توانیاں نیب مقدمات کے جلد از جلد فیصلوں کے لیے بروئے کار لائے۔وزیراعظم نے اقتدار سنبھالتے وقت جس احتساب کا دعویٰ کیا تھا اِس کے پورا ہونے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کی تفتیش پر قومی خزانے کا بے تحاشا سرمایہ خرچ ہو چکا جبکہ اِس کے برعکس نتیجہ صفر ہے۔ حالات اور واقعات کی روشنی میں حکومت کے جانے کا کوئی اِمکان نہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا عدم اعتماد میں کامیابی کا کوئی اِمکان ہے۔

جواب دیں

Back to top button