تمام ابہام ختم ہوئے

تمام ابہام ختم ہوئے
تحریر : سیدہ عنبرین
دنیا بھر میں دو سو ممالک ہیں، جن میں اقوام متحدہ میں شامل ممالک کی تعداد ایک سو بانوے ہے۔ کچھ ملک رقبے کے لحاظ سے، کچھ آبادی کے اعتبار سے بڑے ہیں، جبکہ کچھ ترقی کی رفتار میں بہت سوں کو پیچھے چھوڑ چکے، ایسے بھی ہیں جن کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے، کہنے کو وہ ایک مذہبی بلاک کے اہم ملک میں شمار ہوتے ہیں، ہر ملک میں ایک حکومت قائم ہے، اس کا آئین ہے، اس آئین کے تحت قوانین موجود ہیں، جن کے ذریعے نظام چلایا جاتا ہے۔ بیشر ملکوں میں جمہوری نظام ہے، بعض میں بادشاہی طرز حکومت ہے، کچھ ملکوں میں ڈکٹیٹر ہیں، جن کے ہاتھ میں ملک کی بھاگ ڈور ہے، بعض ملکوں میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے، کہیں کہیں بادشاہت کو جمہوری انداز میں خاص تڑکہ لگا کر کام چلایا جارہاہے، ڈکٹیٹر تو ڈکٹیٹر ہیں انہوں نے مختلف کینچلیاں بدلی ہیں، جسے وہ نظریہ ضرورت قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ایک کارٹون موجود ہیں، کارٹون کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے، کچھ ہونٹوں پر یہ مسکراہٹ بکھرتے ہیں، کچھ لوگ کارٹون دیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنستے ہیں۔ خوش رہنا انسان کا بنیادی حق ہے، ہر شخص کو خوش رہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، پاکستانی جمہوری نظام کے تحت نظام انصاف قائم ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہاں شرعی عدالت بھی موجود ہے، شریعت کورٹ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ملک میں کوئی قانون شریعت سے متصادم نہ ہو، مگر اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شریعت سے متصادم قوانین موجود ہیں۔ ملک میں موجود عایلی قوانین ہیں جو شریعت سے متصادم ہیں، مگر جاری ہیں، سود کا نظام جاری ہے، سودی نظام کو اللہ تعالیٰ سے جنگ قرار دیا گیا ہے، لیکن اب یہ جنگ اعلیٰ عدالتوں کی مرضی کے مطابق جاری ہے، جبکہ شرعی عدالت نے اس جنگ کو مزید کچھ عرصہ جاری رکھنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کی ہے، سود کو ختم کرنے کا معاملہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلمان ممالک میں محب وطن حکومتیں تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اپنی کوشش کرتا رہتا ہے۔ وہ ہر ملک میں ملی اور مذہبی ثقافتی تشخص پر یقین رکھنے والی شخصیات، سیاسی جماعتوں اور خاندانوں کو پیچھے دھکیل کر کاروباری سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں اور خاندانوں کو آگے لانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جن کا اوڑھنا بچھونا کاروبار اور منافع ہو، جو تمام ترجیحات ترک کر کے حتیٰ کہ اپنے مذاہب سے بھی قدرے فاصلہ اختیار کر کے ان کے رنگ میں رنگے جائیں۔ ان کے ایجنڈے پر بخوشی چلنے پر راضی ہوں، ان کی سوچ کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو اسے ’’ نیو امریکی ورلڈ آرڈر‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ملکوں کو کمزور کرنے، ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے کمزور ملکوں کو ڈراتا ہے، جو نہ ڈرے اور مقابلے پر اتر آئے، اس پر سب مل کر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ یو این فورسز کا کردار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، جو صرف اور صرف فقط اسی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون نظر آتا ہے۔
اسرائیل عرب دنیا کے قلب میں ایک خنجر کی طرح پیوست ہے، 1950ء سے لیکر آج تک وہ درجن بھر سے زیادہ جنگیں لڑ چکا ہے اور اپنے چاروں طرف موجود ممالک کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ان کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے۔ اس نے صحرائے سینا چھین لیا، وہ گولان کی پہاڑیوں پر قابض ہو گیا، اس نے اردن کا وسیع علاقہ ہتھیا لیا، اب وہ فلسطینیوں سے فلسطین مکمل طور پر خالی کرانا چاہتا ہے، اس کے ایجنڈے میں مصر، شام اور سعودی عرب کے علاقوں تک قبضہ کرنا شامل ہے۔
خلافت عثمانیہ جیسی مضبوط حکومت کے حصے بخرے کرنا اسی ایجنڈے کا شاخسانہ تھا، جس کے دفاع کیلئے لڑی جانے والی جنگ میں مسلمانوں نے اہم قربانی دی، وہ جنگ میں شریک ہوئے، ان کی خواتین نے اپنے زیور اتار کر سامان جنگ خریدنے اور جنگی ضروریات پوری کرنے کیلئے پیش کیے، یہ قربانی تاریخ میں سنہرے حروف میں محفوظ ہے۔ کئی صدیوں بعد پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے، تو سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ترکی نے پاکستان کی بہت مدد کی۔ ترکی کے اس وقت صدر اور ان کی بیگم پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو ان کی بیگم نے ایک امدادی تقریب میں اپنے گلے میں پہنا بیش قیمت سونے اور ہیروں سے بنا ہار اتار ا اور سیلاب زدگان کے امدادی فنڈ میں دے دیا، ان کا یہ عمل دراصل اس بات کا مظہر تھا کہ زندہ اور با غیرت قومیں اپنے کڑے وقت میں کسی کے کئے گئے احسان کو فراموش نہیں کرتیں۔
اسرائیل نے دو برس میں چار جنگیں چھیڑی ہیں، اس نے غزہ اجاڑ دیا، پھر وہ بھارت کے ساتھ درپردہ ملکر پاکستان کیخلاف برسر پیکار رہا، ٹھیک چند روز بعد اس نے ایران پر حملہ کر دیا، اب وہ شام کی سرحدوں کے اندر گھس گیا ہے۔ لاہور شہر سے کم آبادی رکھنے والا ملک اسرائیل کیا یہ سب کچھ تنہا کر رہا ہے، کیا اس نے اس سے قبل متعدد عرب ملک کے خلاف تنہا ہی جنگ لڑی اور انہیں ناکوں چنے چبوائے، یقیناً نہیں، امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد سے یہ سب کچھ ممکن ہوا، مسلمان ملکوں میں کسی ایک نکتے پر اتحاد نہ ہو سکا، سب باری باری اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور دوسروں کو اسی انجام سے دو چار کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں، امریکہ اور یورپی بدمعاش اب ملکر دنیا کے سب سے بڑے جارح کو دنیا کے تمام مسلمان ملکوں سے تسلیم کرانے کیلئے وار کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ اسرائیل کو مستحکم کرنے کیلئے پہلے برطانیہ نے یہاں جنگیں چھیڑیں، اب امریکہ ان کا ماسٹر مائنڈ ہے، 1984ء میں تیار کئے گئے ماسٹر پلان میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہمیں شام کی طاقت کو ختم کرنے کیلئے اس کے تین حصے کرنا ہونگے، یہاں تین ریاستیں قائم کرنا ہو نگی۔ علوی ریاست لیپو ایریا میں ہو گی۔ دروس کو گولان میں سیٹ کیا جائیگا جبکہ دمشق میں سنی ریاست قائم کی جائیگی، تمام ریاستوں میں اسرائیل، امریکہ اور یورپ دوست حکومتیں ہو نگی۔ چالیس برس تک ہتھیار بکف، صلاح الدین ایوبی کے وارث کردوں کو بھی رام کیا جا چکا ہے، سب کچھ مذکورہ پلان کے مطابق چل رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے، ایک اور ٹریجڈی سر پر کھڑی ہے، ہم بے خبر سوئے ہوئے ہیں بلکہ اس ٹریجڈی میں معاون بننیں والے ہیں۔