تو ہی لائق حمد ہے

تو ہی لائق حمد ہے
تحریر : صفدر علی حیدری
وہ ہستی کیسی ہستی ہے کہ جس کی شان جیسی کسی کی شان نہیں۔ جس کے مقام جیسا کوئی مقام نہیں۔ جس کی شان تو یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ہے۔ جس کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سوا کسی کی حمد بھی نہیں ہے۔ وہی سزاوار حمد و ثناء ہے۔
ہم اگر کسی اور مخلوق کی بھی تعریف کریں گے تو وہ بھی اس کے خالق کی طرف پلٹے گی۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ حمد اور تعریف میں کیا فرق ہے ؟
حمد اور تعریف دونوں کا مطلب کسی کی تعریف کرنا ہے، لیکن حمد خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ تعریف کسی بھی شخص یا چیز کی تعریف ہو سکتی ہے۔
اختیاری خوبیوں کی تعریف کرنے کو حمد کہتے ہیں۔ اَل کلمہ استغراق ہے۔ یعنی ساری حمد، کوئی بھی حمد ہو یعنی اگر غیر خدا کے لیے بظاہر کوئی جزوی ثنا اور حمد دکھائی دیتی بھی ہے تو اس کا حقیقی سر چشمہ بھی ذات خداوندی ہے با الفاظ دیگر مخلوقات کی حمد و ثنا کی بازگشت ان کے خالق کی طرف ہوتی ہے۔
تمام موجودات معلول ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے علت العلل ہے۔ لہٰذا معلول کے تمام اوصاف علت کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا وجود جو ایک کمال ہے، وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے۔
کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں۔
کمال، احسان، احتیاج اور خوف۔
اللہ تعالیٰ کی پرستش و عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں ۔
کمال: اگر کسی کمال کے سامنے ہی سر تعظیم و تسلیم خم ہونا چاہیے تو اس عالم ہستی میں فقط اللہ تعالیٰ ہی کمال مطلق ہے، جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں۔ تمام کمالات کا منبع اور سر چشمہ اسی کی ذات ہے۔ آسمانوں اور زمین میں بسنے والے اسی کمال مطلق کی عبودیت میں اپنا کمال حاصل کرتے ہیں: ’’ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمٰن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا‘‘۔
احسان: اگر کسی محسن کی احسان مندی عبادت و تعظیم کا سبب بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ کی ذات ہی لائق عبادت ہے، کیوں کہ وہی ارحم الراحمین ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ہے: ’’ تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے ‘‘۔
احتیاج: عبادت کا سبب اگر احتیاج ہے تو یہاں بھی معبود حقیقی اللہ ہی ہے، کیونکہ وہ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ وہ علت العلل ہے اور باقی سب موجودات معلول ہیں اور ظاہر ہے کہ علت کے مقابلے میں معلول مجسم احتیاج ہوتا ہے: ’’ اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے ‘‘۔
خوف: اگر وجہ تعظیم و عبادت خوف ہے تو خداوند عالم کی طرف سے محاسبے اور مواخذے کا خوف انسان کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا: ’’ جو نیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے، پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جائو گے ‘‘۔
رحمٰن و رحیم، رب العالمین اور روز جزاء کے مالک پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی ہو۔ اَلحَمدُ لِلّٰہِ سے کمال خداوندی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یعنی خداوند عالم کمال کی اس منزل پر ہے کہ تمام حمد و ثنا صرف اسی کے شایان شان ہے ۔
چونکہ کائنات کا مالک وہی ہے اور ہر چیز پر اسی کی حاکمیت ہے: ’’ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ہیں‘‘۔
لہٰذا جب مومن طاقت کے اصل سرچشمے سے وابستہ ہوتا ہے تو تمام دیگر طاقتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور کسی دوسری طاقت سے مدد لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مخلوق سے مدد طلب کرنا شرعاً جائز ہے جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے: ’’ تم طاقت کے ساتھ میری مدد کرو‘‘، نیز فرمایا: ’’ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو‘‘۔
تو صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مطلب کیا ہوا؟۔ اس کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد توفیق ہے اور توفیق کسی فعل کے انجام دینے کے لیے تمام اسباب کی فراہمی کو کہتے ہیں اور صرف اللہ تمام اسباب فراہم کر سکتا ہے۔ اس لیے ہر مدد کو توفیق نہیں کہتے، بلکہ ہر توفیق مدد ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد بدنی طاقت ہے جو صرف اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔
ہم اگر اپنے وجود پر اور اپنی ناتوانی پر غور کریں تو ہم بھی کبھی غرور پیدا نہ ہو۔
قرآن مجید کا ابتدائیہ سورہ فاتحہ ہے۔ اس میں ہمارے رب نے ہمیں دعا مانگنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھایا ہے۔ اس کے علاوہ کلام مجید میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ دعا کیسے مانگی چاہیے ، اس کے آداب کیا ہے اور یہ بھی کہ ہمیں دعا میں کیا کچھ مانگنا چاہیے۔ گویا اگر وہ نہ بتائے تو ہمیں دعا تک مانگنا نہ آئے۔ گویا دعا مانگنے کا طریقہ اور دعا مانگنے کا خیال بھی اسی کی توفیق کا مرہون منت ہے جو سزاوار حمد و ثنا ہے۔
اب یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا حمد اور عبادت کا آپس میں کوئی تال میل ہے ۔
حمد میں اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور افعال کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔
عبادت وہ تمام کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیے جائیں۔
حمد کو عبادت کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کا اقرار کیا جاتا ہے۔
حمد ایک زبانی عمل ہے، جبکہ دیگر عبادات میں جسمانی اور مالی عمل بھی شامل ہوتی ہیں۔
حمد عبادت کی روح ہے اس کے بغیر ہر عبادت مردہ اور بے جان ہے۔ نماز کی ابتداء حمد سے اور اختتام مناجات پر ہے۔
یہی دیکھ لیجئے کہ حمد میں بھی ہم اس کی پاکی بڑائی بیان کرتے ہیں اور نماز جیسی عبادت بھی شکر گزاری کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اور نماز میں سجدہ افضل ترین رکن ہے۔ جو مکمل طور پر سرنڈر کرنے کی علامت ہے۔ جب انسان سجدے میں سر رکھتا ہے تو اس کا قلب اور پانچویں کی پانچوں حسیں خدا کے آگے جھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ حمد کا ایک عملی پہلو قرار دیا جا سکتا ہے ۔
جس طرح عبادت میں وہ یکتا ہے، دعا فقط اسی سے کی جا سکتی ہے، اسی طرح ہمیں حمد کو بھی خالص کرنا ہو گا کہ حمد تو ہے ہی اسی کی کہ اس کی ہر صفت قابل ذکر ہے لائق حمد ہے ، سزاوار ثناء ہے۔
وہ کون سی عبادت ہے جس میں حمد شامل نہ ہو۔ بلکہ ہر عبادت حمد کا ہی تو پرتو ہے۔ ہم اس کی رضا و خوشنودی چاہتے ہیں اور حمد میں بھی ہمارے پیش نظر یہی مقصد ہوتا ہے۔ گویا حمد اور عبادت کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا امام زین العابدین کا ایک دعائیہ جملہ بے ساختہ یاد آتا ہے ’’ اے اللہ! اگر تو نے ہمیں جہنم میں بھیجا تو یہ تیرا عدل ہو گا، جنت عطا کی تو یہ تیرا فضل ہو گا‘‘۔
ایک مختصر مگر مکمل دعا مولا علیؓ سے بھی منسوب ہے: ’’ یا رب! میری عزت کے لیے یہیں کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر نے یہی کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے، تو ویسا ہی ہے جیسا میں چاہتا ہوں، بس تو مجھے ویسا بنا دے جیسا تو چاہتا ہے ‘‘۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شکر کرنے کا دل اور ذکر کرنے والی زبان عطا کرے۔ ہمیں شکوے کی بجائے شکر کی توفیق سے نوازے۔
صفدر علی حیدری