ColumnImtiaz Aasi

قیدیوں بارے قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں؟

قیدیوں بارے قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں؟
تحریر : امتیاز عاصی
عجیب تماشا ہے ملک میں انگریز کے بنائے ہوئے فوجداری اور سول قوانین پر شد و مد سے عمل جاری ہے لیکن قیدیوں سے متعلق بنائے گئے قوانین پر حکومت عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ پنجاب میں قیدیوں سے زیادتی کا سلسلہ تو سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دور میں شروع ہو گیا تھا جو اب تک جاری ہے ۔ تعجب ہے مسلم لیگ نون کے دور میں جب میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے ہزاروں قیدیوں کو پیرول پر رہائی دی گئی۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے دور میں پیرول پر رہائی کا اختیار صوباءی سیکرٹری داخلہ سے لے کر کابینہ کمیٹی کو دے دیا گیا۔ سوال ہے کابینہ کمیٹی نے اس معاملے میں کیا کرنا ہوتا ہے ماسوائے اس کے اپنے سفارشیوں کو پیرول پر رہائی دلوا دی۔ ایک ذمہ دار ذرائع نے ہمیں بتایا پیرول پر رہائی کمیٹی کے سربراہ جو ایک وزیر تھے نے اپنے بندوں کو پیرول پر رہا کرانے کی خواہش ظاہر کی تو متعلقہ حکام نے انہیں پیرول رولز سے آگاہ کیا۔ اگر کوئی قیدی مروجہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا تو اسے پیرول پر کیسے رہائی دی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ نون اور اس سے پہلے کے ادوار میں ایڈیشنل سیکرٹری ہوم قیدیوں کی سربراہی میں ایک کمیٹی جس میں آئی جی جیل خانہ جات اور قانونی مشیر شامل ہوتے تھے قیدیوں کا ریکارڈ دیکھ کر ان کی پیرول پر رہائی کی سفارش کرتے تھے جس کے بعد صوبائی سیکرٹری داخلہ قیدیوں کی رہائی کے حتمی منظوری دیتا تھا۔ پی ٹی آئی کے دور سے اب تک پیرول پر رہائی کا معاملہ کابینہ کمیٹی کے پاس جاتا ہے جو سال میں ایک دو قیدیوں پر رہائی دیتی ہے۔ تاسف ہے کابینہ کمیٹی کے ارکان نہ تو پیرول قوانین سے واقف ہیں نہ ہی انہیں دفتری امور کا تجربہ ہوتا ہے اس کے ساتھ محکمہ پیرول میں کوئی محکمہ ڈاک اور کوئی کسی اور محکمہ کے افسران کو اعلیٰ عہدوں سے نوازنے سے گزشتہ دو سال سے قیدیوں کی پیرول پر رہائی رکی ہوئی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کم از کم تین ہزار قیدی پیرول پر رہائی کے منتظر ہیں لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ انگریز نے عمر قید کے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا قانون بلا سوچے سمجھے نہیں بنایا تھا جب قانون میں دس سال قید گزارنے والے ان قیدیوں کے لئے جن کا اندورن جیل کنڈکٹ تسلی بخش ہو پیرول پر رہائی دینے کی اجازت دیتا ہے تو کابینہ کمیٹی کون ہوتی ہے جو قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من مانے فیصلے کرے؟ پیرول پر رہائی کے قانون پر عمل درآمد کے احکامات سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے دیئے تھے جس کے بعد ہر ماہ پیرول کمیٹی کے اجلاس میں قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی جاتی تھی۔ پی ٹی آئی دور میں محکمہ پیرول کی تنظیم نو کی گئی جو اچھا اقدام تھا جس میں پیرول افسروں کو اسٹنٹ ڈائریکٹر اور اسٹنٹ ڈائریکٹرز کو ڈپٹی ڈائریکٹر بنانے کی منظوری دی گئی۔ پیرول پر رہا ہونے والے قیدیوں کی حرکات و سکنات کی جانچ پڑتال کے لئے پنجاب انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بورڈ سے باقاعدہ سافٹ ویئر بنوایا گیا تھا لیکن حکومت بدلنے کے بعد یہ معاملہ سردی مہری کا شکار ہو گیا۔ اس ملک کی اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی جب کوئی حکومت قانون بناتی ہے حکومت بدلنے کے بعد دوسری حکومت اس پر عمل درآمد سے گریزاں ہوتی ہے۔ محکمہ پیرول کی تنظیم میں قیدیوں کو ماسوائے اپنے آبائی اضلاع کے کسی بھی ضلع میں ملازمت کرنے کی آزادی دی گئی تھی شائد موجودہ حکومت کو گزشتہ دور میں بنائے گئے پیرول رولز ناپسند ہیں جس کی وجہ سے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا معاملہ رکا ہوا ہے۔ یہ کہاں کا قانون ہے کابینہ کمیٹی ایسے قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنے کی اجازت دیتی ہے جن قیدیوں کی رہائی میں ایک سال رہ گیا ہو۔ سوال ہے جس قیدی نے عمر قید کے دس سے پندرہ سال گزار لئے ہوں مزید ایک سال گزارنے میں انہیں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن کابینہ کمیٹی کو پیرول پر قیدیوں کی رہائی گوارہ نہیں۔ پنجاب کے نئے سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر احمد جاوید نے گزشتہ دنوں پیرول آفس کا دورہ کرکے قیدیوں کے معاملات بارے بریفنگ لی اور دفتر کی نو تعمیر شدہ عمارت کا بھی معائنہ کیا۔ قیدیوں کو پیرول پر رہائی کے دو فائدے ہیں ایک تو جیلوں میں جو گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں جیلوں میں نئے آنے والوں کے لئے رہنے کی جگہ دستیاب ہوگی اور قومی خزانہ پر مالی بوجھ کم ہو جائے گا۔ اصول طور پر محکمہ پیرول میں ایسے ملازمین کو ترقی دے کر پیرول افسر اور اسٹنٹ ڈائریکٹر بنایا جائے تاکہ پیرول کے معاملات تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ محکمہ پیرول کی تنظیم نو کے بعد اس کے بجٹ میں بھی اضافہ ہو گیا ہوگا۔ اگر قیدیوں کو پیرول پر رہائی دینا مقصود نہیں تو اتنے بڑے محکمہ پیرول کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہم تو یہی کہیں گے یا قیدیوں کو پیرول پر رہائی کے قوانین پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے اور کابینہ کمیٹی کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے یا پھر قیدیوں کو معمول کے مطابق پیرول پر رہا کرنے کا سابقہ طریقہ کار بحال کیا جائے۔ دراصل کابینہ کمیٹی قائم کرکے قیدیوں کی پیرول پر رہائی مشکل بنا دی گئی ہے لہذا پیرول پر رہائی دینے کا سابقہ طریقہ کار بحال کرنے فوری طور پر کم از کم ایک ہزار قیدی رہا ہو سکیں گے۔ حیرت ہے قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کسی قیدی کی رہائی ممکن نہیں۔ اب نئے سیکرٹری داخلہ اپنے عہدے کا چارج سنبھال چکے ہیں انہیں ایسے معاملات کو گہری نظر سے دیکھنا چاہیے تاکہ پیرول پر قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری رہے۔ تازہ ترین صورت حال میں پنجاب میں ایسے قیدی جو پیرول پر ہیں ان کی تعداد چند ہے حالانکہ اگر پنجاب حکومت پیرول مروجہ قوانین پر عمل درآمد کرے تو ہر ماہ کم از کم پچاس سے سو قیدی رہا ہو سکتے ہیں۔ کروڑوں روپے کا بجٹ رکھنے والے محکمہ کے افسران اور ملازمین سارا دن فارغ رہتے ہیں نہ قیدی رہا ہوں گے نہ انہیں کام کرنا پڑے گا اور حکومت انہیں تنخواہیں اور مراعات دیتی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button