Column

معاشی ترقی کیلئے کاروبار دوست ماحول ناگزیر

معاشی ترقی کیلئے کاروبار دوست ماحول ناگزیر
تحریر : چودھری خادم حسین

حکومت کی جانب سے ایف بی آر کو غیر معمولی و لامحدود اختیارات دینا اور 2لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن پر بھاری ٹیکس عائد کرنے جیسے اقدامات، کاروباری سرگرمیوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتے ہیں۔ کاروباری برادری کا کہنا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے نام پر کیے جانے والے ان اقدامات سے کاروبار مفلوج اور معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ 37اے اے کے تحت ایف بی آر کو دئیے گئے وسیع اختیارات سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں میں خوف اور بے چینی پھیل چکی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکس محصولات کے اہداف پہلے ہی پورے نہیں ہو پاتے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں غیر دستاویزی معیشت کا بڑا حجم، ٹیکس نظام میں خامیاں، بدعنوانی اور ایف بی آر کی غیر دوستانہ پالیسی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوام اور کاروباری طبقہ پہلے ہی ٹیکس سسٹم سے مطمئن نہیں ہے، تو ایسے اقدامات ان کے اعتماد میں اضافے کے بجائے نفرت اور مخالفت کو بڑھاوا دیں گے۔ 2 لاکھ روپے کی بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس عائد کرنا بظاہر ٹیکس نیٹ میں وسعت کے لیے کیا گیا قدم ہے، مگر اس سے بنیادی طور پر نقدی پر مبنی غیر دستاویزی لین دین کو فروغ ملے گا۔ کاروباری طبقہ بینکنگ چینلز سے مزید دور ہوتا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں معیشت مزید غیر دستاویزی ہو جائے گی، جس کا نقصان براہ راست حکومت کو ہی ہو گا۔ ایف بی آر کو دئیے گئے لامحدود اختیارات سے تاجروں میں ہراسانی کا شدید خدشہ پایا جاتا ہے۔ گزشتہ تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ جب بھی ٹیکس حکام کو بلا روک ٹوک اختیارات ملے، بدعنوانی میں اضافہ ہوا۔ چھوٹے کاروباری افراد رشوت دے کر جان چھڑانے پر مجبور ہوئے اور ٹیکس آمدنی میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت طاقت کے استعمال کے بجائے اعتماد اور مشاورت کی راہ اپنائے۔ حکومت کا یہ مؤقف درست ہو سکتا ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنانا ضروری ہے، مگر اس مقصد کے لیے طاقت کی حکمت عملی نقصان دہ ثابت ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ سٹیک ہولڈرز یعنی کاروباری برادری، چیمبرز آف کامرس، صنعتی ایسوسی ایشنز اور تاجروں کی نمائندہ تنظیموں سے تفصیل سے مشاورت کی جائے۔ ان کے تحفظات سنے جائیں اور مشترکہ حل نکالا جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹیکس وصولی میں بہتری کے لیے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر کی صلاحیت میں اضافہ، ٹیکس قوانین کی سادگی، خود کار نظام اور ٹیکس دہندگان کو سہولتیں دینا زیادہ بہتر حکمت عملی ہے۔ اس کے برعکس تاجروں کو خوفزدہ کرنا یا ان پر اچانک نئے بھاری ٹیکس لاگو کرنا کاروباری سرگرمیوں کو سست کر دے گا، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور معاشی جمود بڑھے گا۔ یہی نہیں، پنجاب کی مجوزہ نئی لیبر پالیسی پر بھی شدید تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ کاروباری برادری کا کہنا ہے کہ اگر یہ پالیسی موجودہ صورت میں منظور ہو گئی تو صنعتی سرگرمیاں مکمل طور پر ٹھپ ہو جائیں گی۔ مبینہ طور پر اس پالیسی میں کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں جو پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ، تنازعات کو ہوا اور صنعت کاروں کے لیے کاروبار کرنا مشکل بنا دیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ اہم اور ضروری ہے۔ انہیں بہتر اجرت، سماجی تحفظ اور محفوظ کام کے حالات ملنے چاہئیں۔ مگر پالیسی بناتے وقت صنعت زمینی حقائق نظرانداز کرنا خطرناک ہو گا۔ پاکستان کی صنعت پہلے ہی توانائی بحران، اخراجات میں اضافہ اور برآمدات میں مسابقت کی کمی کا شکار ہے۔ اگر لیبر پالیسی میں کاروباری لاگت کو بڑھانے والے عناصر شامل ہوئے تو مقامی صنعت کے لیے عالمی مارکیٹ میں زندہ رہنا دشوار ہو جائے گا۔ صنعتی یونٹوں کی بندش کا نتیجہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری، حکومت کی ٹیکس آمدنی میں کمی، اور درآمدات میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ اس سے پاکستان کا تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو آئے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت لیبر پالیسی میں مزدوروں اور صنعت دونوں کے مفاد میں توازن قائم کرے۔ حکومت اگر واقعی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا چاہتی ہے تو اسے طاقت کے بجائے بات چیت کا راستہ اپنانا ہو گا۔ کاروباری طبقے کے خدشات دور کرنا ہوں گے۔ پالیسی سازی میں سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہو گا، تاکہ جو بھی فیصلہ ہو وہ سب کے لیے قابل قبول اور قابل عمل ہو۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات بڑھانے اور معاشی استحکام کیلئے کاروبار دوست ماحول ناگزیر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کاروباری طبقے کو شراکت دار سمجھے، نہ کہ ملزم۔ ٹیکس وصولی کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے کاروباری سرگرمیوں کا فروغ ضروری ہے اور اس کیلئے اعتماد کی بحالی اولین شرط ہے۔ ایف بی آر کو دئیے گئے اختیارات میں توازن پیدا کیا جائے، بے جا اختیارات واپس لیے جائیں اور احتساب کا نظام مضبوط کیا جائے۔ 2لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن پر ٹیکس کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے، تاکہ عوام اور کاروباری طبقہ بینکنگ چینلز سے نہ بھاگے۔ پنجاب کی مجوزہ لیبر پالیسی میں صنعت کی رائے کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ایک متوازن اور دیرپا حل سامنے آ سکے۔ اگر حکومت نے کاروبار دشمن اقدامات پر نظرثانی نہ کی تو اس کے سنگین معاشی نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جن کا بوجھ آخرکار عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور کاروباری طبقہ مل بیٹھ کر پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز کا پائیدار حل تلاش کریں۔

جواب دیں

Back to top button