CM RizwanColumn

حمیرا اصغر قتل۔ بنیادی حقائق

حمیرا اصغر قتل۔ بنیادی حقائق
تحریر : سی ایم رضوان

گزشتہ ہفتے آٹھ جولائی کو کراچی میں اپنے کرائے کے فلیٹ میں مردہ حالت میں پائی جانے والی اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی موت پر مختلف نوعیت کے تبصرے اور خیال آرائیاں سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ لوگ تو اسے ملک میں موجود قانون کے نفاذ میں حائل کمی اور کوتاہیوں کو کوس رہے ہیں تو کچھ لوگ مقتولہ کی اداکای اور معروف ہونے کو باعث نزع قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ مذہبی لوگ اسے حمیرا اصغر کی ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ والی آپشن اپنائے جانے کو دوش دے رہے ہیں۔ الغرض جتنی منہ اتنی باتیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور حمیرا اصغر کا یہ قتل اتنا ہی باعث صد نفرین و قابل مذمت ہے جتنا کہ کسی بھی دوسرے پاکستانی شہری کا۔ نعوذ باللہ۔ بہرحال مقتولہ حمیرا اصغر کی آخری رسومات ان کے آبائی شہر لاہور میں ادا کر دی گئیں۔ گزشتہ جمعے کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹائون کے کیو بلاک میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور وہیں موجود قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔ اس موقع پر ان کے اہل خانہ کے علاوہ مین سٹریم میڈیا کے نمائندوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ واضح رہے کہ حمیرا اصغر کی موت کی خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد یہ قیاس آرائیاں بھی گردش کر رہی تھیں کہ چونکہ ان کا خاندان ان سے ناراض تھا لہٰذا ان کی جانب سے اداکارہ کی لاش وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا گیا تھا۔ تاہم جمعرات کو ان کے بھائی نے یہ تاثر رد کیا تھا اور لاش وصول کر کے لاہور روانہ ہوئے تھے۔ جمعے کے ہی روز لاہور میں حمیرا اصغر کی تدفین کے بعد ان کے چچا نے میڈیا کو بتایا کہ حمیرا کا اپنے خاندان سے رابطہ صرف فون پر تھا اور وہ کبھی دو، کبھی تین یا چھ ماہ بعد لاہور کا چکر بھی لگاتی تھیں۔ حمیرا کے چچا محمد علی نے اس بات کی تردید کی کہ خاندان حمیرا سے اعلان لا تعلقی کر چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حمیرا کا اپنے گھر والوں سے کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں تھا اور نہ خاندان کا کوئی فرد ان سے ناراض تھا۔ انہوں نے کہا کہ حمیرا کے اپنے والدین سے تعلقات انتہائی اچھے تھے اور جائیداد کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جب صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ اتنا عرصہ حمیرا سے رابطہ نہیں ہوا تو آپ نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں حمیرا کے ( کراچی میں) گھر کا ایڈریس معلوم نہیں تھا۔ یاد رہے کہ حمیرا اصغر کے اپارٹمنٹ کے دروازے کے باہر ایک زرد پٹی موجود تھی جس پر اردو میں لکھا ہوا تھا: ’’ خبردار، اس سے آگے جانا منع ہے‘‘۔ اس پر بھی لوگ مختلف قسم کے تبصرے کر رہے ہیں حالانکہ سادہ سی بات ہے کہ کوئی بھی خاتون جہاں رہ رہی ہو اور وہاں اچانک کسی غیر مرد یا خاتون کے آ جانے کا خدشہ ہو تو اس قسم کا نوٹس بورڈ لگا ہونا کوئی قباحت یا تشویشناک معنی نہیں رکھتا۔ دوسرا یہ کہ کراچی کی ہاسنگ اتھارٹی کے فیز سکس کی کمرشل لین فائیو میں قائم یہ نمبر سکس سی عمارت بظاہر باقی عمارتوں کی طرح ہی نظر آتی ہے۔ یہ بلڈنگ مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز اس وقت بنی تھی جب آٹھ جولائی کو اداکارہ حمیرا علی اصغر کی لاش اس عمارت میں موجود ایک اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی۔ جمعرات کی شام اس پانچ منزلہ عمارت کے باہر کچھ گاڑیاں تو کھڑی تھیں لیکن عمارت کے باہر سنّاٹے کا راج تھا۔ یہ ایک پانچ منزلہ عمارت ہے جس کے ہر فلور پر دو اپارٹمنٹ موجود ہیں۔ حمیرا علی اصغر اس عمارت کی تیسری منزل پر رہائش پذیر تھیں۔ عمارت کے باہر کھڑے ہو کر اوپر کی طرف نظر دوڑائیں تو زیادہ تر اپارٹمنٹس کی کھڑکیاں یا تو بند نظر آتی ہیں یا پھر ان پر پردے پڑے نظر آتے ہیں۔ آس پاس سے گزرنے والے لوگوں سے جب صحافیوں کی جانب سے حمیرا کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کے چہروں پر کبھی حیرت اور کبھی الجھن کے تاثرات نظر آئے۔ واضح رہے کہ اس عمارت کا دروازہ بند ہے اور صرف اندر سے باہر نکلنے والے مکین ہی اسے کھول سکتے ہیں۔ یاد رہے ک اس عمارت کے نیچے ایک ویٹرنری کلینک بھی موجود ہے۔ صحافیوں کی جانب سے اس کلینک کے عملے سے جب حمیرا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ البتہ کلینک میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے جلدبازی میں بتایا کہ ہم نے کبھی اس خاتون کو آتے جاتے نہیں دیکھا، ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ یہاں کوئی اداکارہ رہتی ہے۔
کراچی کے ضلع جنوبی کے ایس ایس پی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اداکارہ حمیرا علی لاہور کی رہائشی تھیں اور اتحاد کمرشل کے علاقے میں سال 2018ء سے فلیٹ میں رہتی تھیں۔ 2024ء سے انہوں نے کرایہ دینا بند کر دیا تھا جس کے خلاف مکان مالک نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ ایس ایس پی کے مطابق پولیس عدالت کے بیلف کے ساتھ منگل کو متعلقہ فلیٹ پر پہنچی تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ جب آہنی گیٹ اور لکڑی کا دروازہ توڑ کر پولیس اندر داخل ہوئی تو حمیرا علی کی لاش زمین پر موجود تھی جو کئی روز پرانی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی تاریخ نہیں دی گئی، تاہم یہ ضرور لکھا گیا ہے کہ موت اور پوسٹ مارٹم کے درمیان گزر جانے والا وقت آٹھ سے 10ماہ ہو سکتا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتولہ کے جسم کے تمام جوڑ اور ہڈیاں سالم ہیں، جسم گل چکا ہے اور اس پر سیاہ دھبے ہیں جبکہ زخم کا کوئی نشان نہیں پایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موت کی اصل وجہ لیبارٹری اور کیمیکل نتائج کے بعد بتائی جائے گی۔ دوسری جانب کراچی کے ضلع جنوبی کے ڈی آئی جی اسد رضا نے صحافیوں کو بتایا کہ اب تک پولیس کو اس موت کی کوئی مجرمانہ وجہ نظر نہیں آئی، تاہم تحقیقات جاری ہیں۔ دوسری جانب ضلع جنوبی کے ایس ایس پی مہروز نے صحافیوں کو بتایا کہ اداکارہ کے موبائل کے کال ڈیٹیل ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر آخری مرتبہ کوئی ایکٹویٹی اکتوبر 2024ء میں ہی ہوئی تھی اور ان کے ریفریجریٹر سے ملنے والی کھانے کی اشیا پر ایکسپائری ڈیٹ بھی اکتوبر کے قریب ہی کی درج ہے۔ ان کے مطابق حمیرا علی کا گھر اندر سے بند تھا اور ہم اسے توڑ کر ہی اندر داخل ہوئے تھے۔ پولیس سرجن سمیعہ سید کا کہنا ہے کہ حمیرا اصغر کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اداکارہ کی لاش ڈی کمپوزیشن کی ایڈوانس سٹیج پر ہے تاہم لاش سے نمونے اکٹھے کرنے کے بعد موت کی وجہ کا تعین باقی ہے۔ البتہ لاش سے تشدد کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کی حد ہوتی ہے۔ جتنا ایڈوانس ڈی کمپوزیشن ہو جائے انجریز کی نشاندہی کرنا اتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پولیس سرجن نے یہ بھی بتایا کہ موت کے وقت کا تعین آٹھ ماہ قبل صرف لاش کی حالت سے نہیں کیا گیا بلکہ اس میں واقعاتی شواہد کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔حمیرا اصغر کی موت کے حوالے سے جو اس وقت تک سب سے اہم اور بڑا سوال ہے وہ یہ ہے کہ کہ اگر پولیس حکام اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق حمیرا کی موت ہوئے چھ سے آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا تو یہ موت اتنے عرصے تک پڑوسیوں اور مقتولہ کے خاندان والوں سے کیسے چھپی رہی؟ حمیرا کے اپارٹمنٹ کے کرایہ نامہ پر حمیرا اور مالک مکان کی جانب سے دسمبر 2018ء میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس کرایہ نامہ کے مطابق اس وقت ان کے فلیٹ کا ماہانہ کرایہ 40ہزار روپے طے پایا تھا اور اس کا قبضہ لیتے وقت اداکارہ نے ایک لاکھ 60ہزار روپے ایڈوانس دیا تھا۔ اسی کرایہ نامہ میں لکھا ہے کہ حمیرا کا تعلق لاہور کے علاقے گرین ٹائون سے تھا، جبکہ ان کے فلیٹ کے مالک کا پتہ کوئٹہ کینٹ کا ہے۔ جب جمعرات کو صحافیوں نے ایس ایس پی مہظور علی سے پوچھا کہ کیا حمیرا کے پڑوسیوں کو لاش سے اٹھنے والے تعفن سے بھی کوئی گڑ بڑ محسوس نہیں ہوئی تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے وہ بلڈنگ دیکھی ہوگی جو کہ تقریباً 150گز کے رقبے پر محیط ہے اور اس بلڈنگ کی ہر منزل پر دو فلیٹس ہیں۔ ان کے پڑوسی کہتے ہیں کہ اس دوران ہم گھر پر موجود نہیں تھے اور وہ فروری میں واپس آئے ہیں۔ جو لاش کے گلنے کا ابتدائی عمل ہوتا ہے وہ تب ( فروری) تک پورا ہو چکا ہو گا اور تب تک (باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
( لاش سے اُٹھنے والی) بدبو مدھم ہو گئی ہوگی۔
یاد رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کے انسٹا گرام اکائونٹ پر آخری پوسٹ ستمبر 2024ء کے آخر میں کی گئی تھی اور اس دوران وہ ایک میگزین کے لئے فیشن شوٹ کر رہی تھیں۔ اس شوٹ کے وقت سٹائلسٹ دانش مقصود نے ان کی سٹائلنگ کی تھی۔ انہوں نے کراچی کے صحافی قیصر کامران صدیقی کو بتایا کہ اداکارہ حمیرا اصغر سے واٹس ایپ پر ان کا آخری رابطہ 2اکتوبر 2024ء میں ہوا تھا۔ دانش مقصود کی طرف سے شیئر کیے گئے واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو کے سکرین شاٹ کے مطابق حمیرا علی اصغر انہیں کہہ رہی تھیں کہ’’ آپ کی ٹیم کے ساتھ کام کر کے لُطف آیا‘‘۔ اسی سکرین شاٹ پر ’’ لاسٹ سین‘‘ ( یعنی آخری بار دیکھا گیا) کے آگے 7اکتوبر 2024ء لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ جیسے اداکارہ کا واٹس ایپ اکائونٹ آخری مرتبہ گزشتہ برس اکتوبر میں ہی استعمال کیا گیا تھا لیکن حمیرا کے گھر سے ملنے والے دو دیگر موبائل فونز کا فرانزک تجزیہ ہونے تک اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ تاہم دانش مقصود کہتے ہیں کہ انہوں نے رواں برس فروری میں حمیرا اصغر سے رابطہ کرنے کی نہ صرف کوشش کی تھی بلکہ ان کی ٹیم نے فلانٹ پاکستان میگزین نامی فیس بُک پیج سے ان کی’ گمشدگی ‘ کی پوسٹ بھی لگائی تھی۔
جمعرات کو کراچی پولیس کے دو سینئر افسروں ڈی آئی جی اسد رضا اور ایس ایس پی مہظور علی نے ان کے خاندان کے دو افراد کی کراچی آمد کی تصدیق کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اداکارہ کے گھر والوں نے انہیں بتایا کہ حمیرا اصغر خود ہی ہم سے رابطہ کرتی تھیں، ہم رابطہ نہیں کرتے تھے اور جب چھ، سات مہینوں تک ان کا رابطہ نہیں ہو پایا تو پھر اہل خانہ نے حمیرا کے قریبی لوگوں سے رابطہ کیا اور انہوں نے بھی گھر والوں کو یہ بتایا کہ ان کا حمیرا سے کوئی رابطہ نہیں۔ جمعرات کی رات حمیرا کے بھائی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں تاثر دیا گیا کہ والدین لاش وصول نہیں کر رہے۔ حالانکہ لاش اگر پولیس کے پاس ہو تو قانونی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ نوید اصغر نے مزید کہا کہ ہم چھیپا صاحب اور پولیس سے رابطے میں تھے۔ ایک ماہ قبل میری پھوپھو کی روڈ ایکسیڈنٹ میں موت ہوئی تھی، والدین اس وجہ سے بھی پریشان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط تاثر دیا گیا کہ والدین کا حمیرا سے قطع تعلق تھا۔ وہ ( حمیرا) ایک خود مختار خاتون تھیں، ان کی اپنی پہچان تھی۔ تاہم ان کے مطابق ان کی والدہ کا حمیرا سے کافی ماہ سے رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔
ان تمام بنیادی معلومات اور حقائق سے سردست یہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ آیا یہ قتل ہے یا خود یہی وجہ ہے کہ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اب صرف ایک اداکارہ کی پراسرار موت پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ظالموں کو بے نقاب کرے۔
سی ایم رضوان

جواب دیں

Back to top button