Columnمحمد مبشر انوار

تحریک

تحریک
تحریر : محمد مبشرانوار (ریاض )

قانون فطرت ہے کہ شب کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، اس کا سویرا سورج کی کرنیں نمودار ہوتے ہی ہو جاتا ہے البتہ اس کا تعین کرنا کہ شب کی تاریکی کتنی طویل ہو سکتی ہے اور سورج کی کرنیں کب پھوٹتی ہیں، انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ تاہم حالات کی سختی اور فرعون نما حکمرانوں کی فرعونیت اگر حد سے بڑھ جائے تو رحمت خداوندی جوش میں آتی ہے اور فرعونوں کی سرکوبی بہرطور ہو جاتی ہے۔ جو حالات و واقعات آج پاکستان کے ہیں اور جس طرح اشرافیہ مملکت خداداد پاکستان کو لوٹنے کھسوٹنے پر تلی ہے، اس کے بعد جو الفاظ ایک شہری نے حکمرانوں کے متعلق ادا کئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ بے بس شہریوں کے پاس نہیں ہو سکتا کہ اسی طرح وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں ۔ مقام افسوس ہے کہ ہر مدت اقتدار کے بعد یہ اشرافیہ، عوام کے پاس ایک ہی نعرے کے ساتھ جاتی ہے کہ اگر ہمیں ایک موقع ملے تو ہم اس ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے لیکن ہر مرتبہ موقع، خواہ بیساکھیوں کے ذریعہ ہو یا براہ راست مقتدرہ کی سہولت کاری سے میسر آئے، عوام کی تقدیر میں مزید ذلت و مشکلات ہی دکھائی دیتی ہیں۔ تسلیم کہ شہری کی جانب سے الفاظ کا چنائو مناسب نہیں تھا لیکن آواز بہرحال ایک دکھی دل کی تھی کہ جس میں مصائب و آلام و مشکلات میں مبتلا ایک شخص، اپنے تئیں اپنے قصورواروں پر تبری بھیجتا ہوا نظر آیا۔ یہاں یہ بات لازمی طور پر ملحوظ رکھی جائے کہ اس کلپ کے وائرل ہوتے ہی ان خدشات کا اظہار واضح طور پر کیا گیا کہ جو الفاظ شہری نے دوسری شخصیت کے لئے استعمال کئے، وہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہو ں گے اور اس کا خمیازہ شہری کو بھگتنا پڑے گا، مطلب بات اگر صرف وزیر اعلیٰ تک محدود رہتی تو ممکنہ طور پر ہضم ہو جاتی یا کر لی جاتی یا جبرا کروا دی جاتی گو کہ صرف وزیراعلی کے خلاف بھی ایسی زبان کو وزیر اعلی خود برداشت نہ کرتی اور شہری کو خمیازہ لازمی بھگتنا پڑتا مگر اس کی ویڈیو منظر عام پر نہ آتی لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ جس دوسری شخصیت کے متعلق گل افشانی ہوئی تھی، اس کا مداوا معافی کی ویڈیو کے بغیر ہوتا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس طرح کی معافی کی ویڈیو جاری کرنے سے کیا حقائق بدل سکتے ہیں یا عوامی رائے بدل سکتی ہے یا کیا عوام الناس کو اس حقیقت کا علم نہیں ہو چکا کہ ’’ سوفٹ وئیر اپڈیٹ‘‘ کون ، کیسے اور کہاں کرتا ہے؟ کیا اس قسم کے روئیے سے عوامی پذیرائی میں اضافہ ممکن ہے؟ تسلیم کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان کی زبردست کارکردگی نے، افواج پاکستان پر عوام کا اعتماد بہت سے زیادہ بحال کیا ہے اور عوام افواج کی پیشہ ورانہ مہارت پر مان بھی کرتی ہے اور فخر بھی کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے امور میں افواج پاکستان کی ایسی مداخلت یا سوفٹ وئیر اپڈیٹ کرنی کو قطعا قابل ستائش نہیں سمجھتی اور اس خصوصی معاملے پر عوام کے تحفظات بہرطور اپنی جگہ نہ صرف موجود ہیں بلکہ پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ بہرحال ’’ اصل حکومت‘‘ اور ’’ حکمرانوں‘‘ کے ان اقدامات سے عوام کا پیمانہ صبر لبریز دکھائی دیتا ہے اور ایسے حالات بہرطور کسی بھی تحریک کے لئے انتہائی سازگار ہوتے ہیں بشرطیکہ حکمران اپنی طاقت کے نشے میں اس کا اندھا دھند استعمال نہ کریں تو بآسانی پرامن طریقے سے تحریک کامیاب ہو جاتی ہے لیکن اگر حکمران طبقہ طاقت کے اندھا دھند استعمال پر تل جائے تو اس کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں، جس میں بہرکیف انسانی جانوں کا زیاں بنیادی ہوتا ہے کہ اس کے بغیر کسی بھی تحریک کو روکا نہیں جا سکتا ۔
ایک عام شہری کی بابت کیا لکھیں کہ اس ملک میں تو سابق وزرائے اعظم تک کو ’’ نافرمانی‘‘ کی سزا بھگتنا پڑتی ہے تاوقتیکہ وہ سرنگوں نہ کر دے، گھٹنوں کے بل نہ بیٹھ جائے وگرنہ بصورت پھانسی گھاٹ یا لیاقت باغ میں قتل ہو جانا ایک معمول ہی سمجھا جاتا ہے۔ کل کا وزیر اعظم آج بھی اڈیالہ جیل میں اسیر ہے اور وہ مسلسل ایک ہی موقف دہراتا نظر آتا ہے کہ وطن عزیز میں حقیقی آزادی تک، میں چین سے نہیں بیٹھوں گا اور نہ کسی کو بیٹھنے دوں گا، گو کہ اس کا دوسروں کو چین سے نہ بیٹھنے دینے کا دعویٰ غیر حقیقی سا لگتا ہے کہ جن کے متعلق وہ یہ دعوی کرتا ہے، انہیں اس سے کوئی سروکار ہی دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے موقف سے کسی بھی صورت پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں اور دوسری طرف عوام ہے، جو واقعتا اس کی جوانمردی پر، اس کے ہمرکاب دکھائی دیتی ہے اور اپنے دکھوں کا مداوا بھی اسی کو سمجھتی ہے۔ اسیری میں بھی، اس کی کال پر عوام الناس جوق در جوق سڑکوں پر نکل آتی ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کرتی ہے کہ وہ اپنے قائد کو جیل کی سلاخوں سے چھڑوائے گی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عوام کے اس جم غفیر کی قیادت کرنے والی صف دوم کی قیادت عین موقع پر پیچھے ہٹ جاتی ہے یا ہٹا لی جاتی ہے۔ یوں بنا بنایا کھیل، غیر منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے اور کھیل کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جب تک بساط پر موجود مہرے وہی پرانے ہوں گے، کھیل کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا کہ اب تو یہ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ اراکین اسمبلی، جنہیں عوام نے ووٹ عمران خان نظرئیے اور اس کی رہائی کے لئے دیا تھا، وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کر چکے ہیں۔ اکثریت کی حالت یہ ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں، ابتدائی دنوں میں ہی اگر عمران کی رہائی کے لئے سنجیدہ کوششیں ہوتی اور ’’ حکمرانوں‘‘ کو قائل کر لیا جاتا تو ممکن تھا کہ عمران خان رہائی ہو جاتی بشرطیکہ عمران خان اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کر لیتا ۔ اب صورتحال بہرطور مختلف ہو چکی ہے اور عمران خان کے نام پر ووٹ لینے والوں کی، وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے، ان کے لئے خود کو چھپانا مشکل ہو چکا ہے اور اس حقیقت کے عیاں ہونے کے بعد،ان کے لئے بھی یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل سکیں لہذا صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ اب عمران خان کی مخالف وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ جو سہولیات انہیں اس کھیل میں میسر ہیں، ممکنہ طور پر اتنی طویل اسیری جھیلنے کے بعد، عمران خان کے ہمرکاب انہیں میسر نہ ہوں، لہذا ذاتی مفاد کا تقاضہ یہی ہے کہ چونکہ عمران خان اسیری کا اسیر ہو چکا ہے، خود کو ایڈجسٹ کر چکا ہے تو اسے وہیں رہنے دیا جائے اور اپنی آسائشوں سے دستبردار نہ ہوا جائے۔ دوسری طرف عمران خان ایک بار پھر ان کھوٹے سکوں پر ہی تکیہ کرکے، تحریک کی کال دے چکا ہے، جس کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش علی امین گنڈا پور اور اس کے رفقائ، لاہور میں مرزا آفریدی کے فارم ہاؤس میں اکٹھے ہوکر چکے ہیں، جس میں 5اگست کی بجائے، تحریک کا دورانیہ 90دن تک بڑھانے کی درفنطنی چھوڑی جا چکی ہے البتہ عوام کے سخت ردعمل کے بعد، اب اس کی مختلف توجیحات و تشریحات پیش کی جا رہی ہیں۔ اس کا دوسرا رنگ یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ خود کو عمران خان کا ادنی کارکن کہنے والا، خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ الگ بدن بولی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس کے ہر رنگ سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ بہرطور وہ تحریک انصاف پر کنٹرول حاصل کر چکا ہے،حتی کہ سلمان اکرم راجہ جیسا شخص اس کی چکنی چپڑی باتوں میں رنگا دکھائی دے رہا ہے جبکہ عالیہ حمزہ چیف آرگنائزر پنجاب،علی امین کی بچھائی بساط پر کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ تاہم عالیہ حمزہ کے متعلق یہ خبریں ضرور ہیں کہ وہ پنجاب میں واقعتا تحریک کے لئے ٹھوس بنیادوں پر کام کر رہی ہیں اور پنجاب کو سڑکوں پر لانے کے اپنے سے جتن کرر ہی ہیں۔ اگر تحریک انصاف کے مرد، واقعتا بساط پر مہرے بن رہے ہیں تو عالیہ حمزہ و صنم جاوید ایسی خواتین ابھی موجود ہیں جو اپنی کامل وفاداریوں کے ساتھ نہ صرف اپنی سیاسی جماعت بلکہ اپنے قائد کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔ سندھ میں حلیم عادل شیخ کے متعلق بھی ایسی ہی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ وہ بھی تحریک کی کامیابی کے لئے بھرپور طریقے سے بروئے کار آ رہے ہیں اور عوام کو سڑکوں پر لانے کی سعی میں مصروف عمل ہیں۔ مذکورہ تحریک کا طریقہ کار چونکہ بدل دیا گیا ہے کہ ماضی میں ایسی تحریکوں کے لئے عوام کو خیبر پختونخوا کے علاوہ دیگر صوبوں سے بالعموم جبکہ پنجاب سے بالخصوص نکلنے نہیں دیا جاتا تھا لہذا اس مرتبہ منصوبہ بندی یہ کی گئی ہے کہ پورے پاکستان میں، گلی ، محلوں اور میں سڑکوں پر دھرنا دے کر پہیہ جام کیا جائے تا کہ قانون نافذ کرنے والے کسی ایک جگہ پر کارروائی کرنے کے قابل نہ رہیں۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ محدود جگہ پر بیٹھنے والوں کو کم تعداد میں پولیس اہلکار کنٹرول کر لیں کہ کمی کو پورا کرنے کے لئے پولیس کے علاوہ دیگر فورسز کے جوانوں کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے، ریزرو کو بھی بلایا جا سکتا ہے کہ جب مقصد تحریک کو ناکام بنانا مقصود ہو تو کسی بھی طرح کا انتظام، انتظامیہ سے بعید ہے، بالخصوص جب اراکین اسمبلی خود صرف دکھاوے کے لئے باہر نکلیں یا گھروں میں ہی بیٹھے رہیں، تو تحریک کا کیا بنے گا بصورت دیگر کیا ہم پاکستانی اپنی زندگیوں میں وہ سورج طلوع ہوتا دیکھ سکیں گی جو پاکستان میں چھائی طویل تاریک رات کا اندھیرا چاک کر دے!!!

جواب دیں

Back to top button