غزہ کی پکار کون سنے گا ؟

غزہ کی پکار کون سنے گا ؟
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
غزہ میں اسرائیل اور امریکہ کی حمایت سے چلنے والے امدادی مرکز کے ایک سابق سکیورٹی کنٹریکٹر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انہوں نے بارہا اپنے ساتھیوں کو ایسے بھوکے فلسطینیوں پر فائرنگ کرتے دیکھا ہے جو کسی طرح سے خطرے کا باعث نہیں دکھائی دیتے تھے۔ ان فلسطینیوں پر فائرنگ میں مشین گنز کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ایک موقع پر واچ ٹاور ( حفاظتی ٹاور) پر تعینات ایک محافظ نے مشین گن سے محض اس لیے فائرنگ کی کیونکہ خواتین، بچے اور بزرگ افراد کے ایک گروہ کی رفتار اُس وقت بہت آہستہ تھی جب وہ امدادی مرکز سے دور جا رہے تھے۔
غزہ میں سورج غروب ہوتے وقت بھی بمباری کی آوازوں سنائی دے رہی ہیں اور ایسے میں وہ لوگ، اپنے ان پیاروں کی اپنے ساتھ آخری بار ہونے والی گفتگو یا جملے یاد کر رہے ہیں جو اس جنگ کے دوران لقمہ اجل بن گئے۔
زندگی کی ڈور ٹوٹنے سے پہلے ادا کیے جانے والے الفاظ اب پیچھے رہ جانے والوں کے لیے سرمایہ حیات ہیں۔
فلسطینی صحافی واد ابو ظہیر نے اپنے فیس بک اکائونٹ پر ایک سوال پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے پوچھا ’’ مرنے سے پہلے انہوں نے آپ سے آخری جملہ کیا کہا تھا؟‘‘۔ اپنے نقصان کا بوجھ ظاہر کرتے اس سوال کے جوابات دل کو چیرنے والے ہیں۔ جوابات نے ان لوگوں کا ایک دستاویزی ریکارڈ فراہم کیا، جنہوں نے جنگ میں اپنے پیاروں، رشتہ داروں یا دوستوں کو کھو دیا۔ ایک اسرائیلی اخبار کے مطابق یہ زخمی اہلکار جنوبی اور شمالی غزہ میں تین مختلف محاذوں پر پیش آنے والی جھڑپوں کے دوران زخمی ہوئے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 2جولائی سے 8جولائی کے درمیان اسرائیلی فوج نے 4انخلا کے احکامات جاری کیے، جن میں تین ایسے تھے، جن سے جو اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق ایجنسی کی 37تنصیبات کو متاثر کرتے ہیں، جو بے گھر فلسطینیوں کی مدد فراہم کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ مارچ کے وسط میں اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سے اب تک 7لاکھ 25ہزار سے زائد افراد ایک بار پھر بے گھر ہو چکے ہیں، ان میں سے بیشتر کئی بار نقل مکانی کر چکے ہیں۔
غزہ میں صورتحال بے قابو ہو گئی ہے۔ اسرائیلی وحشیانہ حملوں میں گزشتہ روز بچوں اور خواتین سمیت مزید درجنوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ شمالی غزہ کے مسلسل اسرائیلی محاصرے کے باعث شمالی غزہ کے مرکزی شہر میں پانی کی سپلائی بھی مکمل بند ہو گئی۔ اسرائیل نے غزہ شہر کے جنوب سے فلسطینیوں کی مزید جبری نقل مکانی کا حکم دے دیا۔ صدر فلسطین ہلال احمر سوسائٹی کے مطابق اسرائیلی حملے میں حال ہی میں 15طبی اور ایمرجنسی اہلکاروں کا قتل مشتبہ جنگی جرم ہے جو غزہ جنگ کے تاریک ترین لمحات میں سے ایک ہے۔ فلسطینی جرنلسٹس پروٹیکشن کمیٹی کے مطابق اسرائیل نے لبنان میں ٹارگٹڈ حملہ کرتے ہوئے فلسطینی صحافی محمد صالح محمد برداوِل، ان کی اہلیہ اور ان کے تین بچوں سمیت شہید کر دیا۔ صالح 18مارچ کے بعد شہید ہونے والے چوتھی فلسطینی صحافی ہیں۔میڈیا رپورٹس اور اسرائیلی و فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیل نے لبنان کے علاقے صیدا کے رہائشی علاقے میں ایک فلیٹ پر حملہ کر کے حماس کمانڈر حسن فرحات کو ان کے بیٹے اور بیٹی سمیت شہید کر دیا۔ ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز ( ایم ایس ایف) نے کہا ہے کہ اسرائیل نے ان کی تنظیم کے11ویں ڈاکٹر حسام آل لولو، ان کی اہلیہ اور 28سالہ بیٹی کو بمباری کر کے شہید کر دیا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے غزہ، مغربی کنارے پر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں عالمی ادارے کے اہلکاروں کی حالیہ اموات جنگی جرائم کمیشن کے لئے باعث تشویش ہیں۔ پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حملوں سے مسائل کا شکار فلسطینیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی، سلامتی کونسل کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور سلامتی کونسل کو اس سب کو روکنے کیلئے لازما اقدامات کرنے چاہئیں۔ چین کے مستقل نمائندے فو چھونگ نے زور دیا کہ دو ریاستی حل ہی واحد ممکنہ راستہ ا ور جنگ کو دوبارہ شروع کرنا صرف مزید قتل اور نفرت کو جنم دیگا۔ اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا غزہ میں خوراک کو ہتھیار کے طور استعمال اجتماعی سزا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بغائی نے اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کا ہدف بنا کر قتل، امدادی کارکنوں اور طبی مراکز پر جان بوجھ کر حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر مسلم دنیا خاموش ہے۔ عرب دنیا تو شاید سو بھی رہی ہے۔ امریکی صدر نے سعودی ولی عہد کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات تو کی مگر اس طرف سے یہ تک کہنے کی جرات نہیں کی گئی کہ غزہ پر مظالم بند کرنے اور امن معاہدے کی پاس داری کی بات کی جاتی۔ اس بے حسی پر سر ہی پیٹا جا سکتا ہے۔ جن کے گھر کا مسئلہ ہے وہ کانوں میں تیل ڈالے مست پھر رہ رہے۔ الٹا مصر سے قطر تک کتنے ہی اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ پاکستان اور ایران جیسے سر پھرے ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر میرا سوال یہ ہے اسرائیل جیسے خون آشام بھیڑیے کے خلاف کوئی آواز کیوں نہیں اٹھاتا۔ اقوام متحدہ کس مرض کی دوا ہے۔ او آئی سی کو اسرائیل کے نام پر کپکپی کیوں طاری ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر کی تنظیمیں کیوں خاموش ہیں۔ انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے کہاں مر گئے ہیں ۔ ان کے کانوں پر غزہ کی مظلوموں کی صدائیں اور آہیں کیوں نہیں پہنچتیں۔ ان کی آنکھیں اتنے مظالم دیکھ کر ، غیر انسانی سلوک دیکھ کر کیوں نہیں کھلتیں۔ کیا دنیا میں انصاف کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ کیا ظلم کے خلاف بولنے والا کوئی باقی نہیں بچا۔ کوئی ملک، کوئی تنظیم، کوئی ادارہ ۔۔ کوئی بھی نہیں۔ کوئی ایک بھی باقی نہیں بچا جو ان کی داد رسی کر سکے۔ ان کے حق میں آواز بلند کر سکے۔ ان کی آواز بن کر اسرائیل اور امریکہ کو للکار سکے۔
غزہ کے مظلوم بچے بوڑھے بیمار اور عورتیں کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ کب تک اپنے پیارے گنواتے رہیں گے۔ کب تک ان پر مظالم ڈھائے جاتے رہیں گے۔
حالیہ کچھ عرصے میں ہزاروں لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ آئے روز لاشے گرتے ہیں۔ چیخ و پکار گونجتی ہے۔ آہیں آسمان کی طرف جاتی ہیں۔ آنسو بہتے ہیں۔ حوصلے ٹوٹتے ہیں۔ امیدیں دم توڑتی ہیں۔ سانسیں رکتی ہیں۔ سسکیاں بلند ہوتی ہیں۔
غزہ کے مظلومین کی آواز کون سنے گا، ان کی آواز پر لبیک کون کہے گا۔ کیا عالمی ضمیر اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ اس میں جان باقی نہیں رہی۔ آج غزہ کے مظلوم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ وہاں سے ان کے لیے امداد آئے گی۔ کوئی مسیحا اترے گا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ کبھی ایک مسلمان دس لوگوں پر بھاری ہوا کرتا تھا اور آج ایک کروڑ اسرائیلی ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر بھاری ہیں۔