حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی

حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی
ضیاء الحق سرحدی
تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں متعدد ایسی جامع الکمالات شخصیات کا ظہور ہوا ہے جن کے علمی، عرفانی اور عملی کارناموں سے آگاہ ہو کر ہر انصاف پسند شخص بے ساختہ حیرت زدہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ کسی ایک شخص میں اتنی زیادہ ظاہری وباطنی خصوصیات کا بہ یک وقت اجتماع معمول کی بات نہیں ہوتی اور ایسی زندہ جاوید مثالیں نادر ہوتی ہیں۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی عالم اسلام کی مقتدر شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت ہیں، جو مورخ، سیرت نگار، سوانح نگار، نثرنگار اور شاعر کے علاوہ ایک عظیم صوفی بزرگ ہوئے ہیں۔ آپ کا شمار صف اول کے صوفیا کرام میں ہوتا ہے۔ تاریخ اور تصوف پر آپ کا کام رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ علامہ جامی نے صوفیا کرام کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے بزرگان دین سے روحانی استفادہ کے لیے سفر و سیاحت کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور یوں دامن ِمراد میں روحانیت بھرتے گئے ۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ آپ کا یہ پہلو آپ کو ممتاز کرتا ہے ، جس کی وجہ سے شرق و غرب آپ کا شہرہ ہے ۔ آپ نے جس و الہانہ انداز سے بارگاہ رسالتﷺ میں ہدیہ نعت پیش کیا ہے ، اس کا تمام فارسی ادب میں جواب نہیں ملتا۔ وہ وادی بطحا میں پہنچ کر مدینہ، خاک ِمدینہ، خارِمدینہ، حتی کہ سگِ مدینہ کو بھی اپنے دل کے قریب پاتے ہیں۔ وہ سرزمین نبی ﷺ کو جانے والے قافلوں کو سلام کرتے ہیں۔ قافلہ حجاز کے اونٹوں کے ساربان ان کے پیغام رساں ہیں، نسیمِ بہاری کو فریاد پہنچانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔
’’ نسیما جانب بطحا گزرکن ز احوالم محمد راخبر کن‘‘
پھر فرماتے ہیں: بانگ وصل از قافلہ برخاست خیزاے سارباں! زخم بنہ برراحلہ آہنگ رحلت کن رواں ۔ یا رب مدینہ است ایں حرم کز خاکش آید بوئے جا یا ساحت باغ ارم یا عرصہ روض الجناں۔
وہ عشق رسول ﷺ میں ڈوب کر نعت لکھتے تھے اور وہ اس فن میں منفرد ہی نہ تھے، امام تھے۔ دیدارِ روضہ اطہر کیلئے جس جذب و جنوں کا حصہ انہیں ملا تھا، وہ دوسرے شاعروں کے ہاں کم پایا جاتا ہے۔ وہ کوئے رسولﷺ میں سر کے بل جاتے ہیں، دیدہ و دل فر ش راہ کرتے ہیں، پلکوں سے جاروب کشی کرتے ہیں اور پھر فریاد، التجا، الحاح اور گریہ و فغاں کی جو رقت ان کے ہاں پائی جاتی ہے، اس سے رحمت دو عالمﷺ کی گھٹائیں جھوم جھوم جاتی ہیں۔ وہ سرکار دو عالمﷺ کی محبت کے دامن میں لپٹ کر اپنی بات کہتے ہیں:
’’ ادیم طائفی نعلین پاکن شراک ازرشتہ جانہائے ماکن‘‘
جامی جس جذبہ و مستی میں بارگاہ رسولﷺ میں حاضر ہوتے ہیں، اس میں جنید و بایزید کا ادب بھی ہے، اور بلال حبشی کی رقت و الہیت بھی۔ ( حالات جامی ،مقدمہ شواہد النبو، صفحہ 14 )
علامہ منشا تابش قصوری لکھتے ہیں: حضرت شاہ محمد ہاشم جامع الشواہد میں تحریر فرماتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول کی ایک پرکیف اور نورانی رات میں امام العاشقین حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی قدس سرہ السامی نے ایک روح پرور اور ایمان افروز خواب دیکھا کہ محراب النبیﷺ کے قریب حبیب کبریا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺجلوہ افروز ہیں، ذکر و اذکار اور حمد و نعت کا سلسلہ جاری ہے۔ حضرت جامی بھی چند نعتیہ اشعار پیش کرتے ہیں، جنہیں سرکار ابد قرا منظور فرماتے ہیں۔ جب آنکھ کھلی تو جامی پر وجد و سرور کی کیفیت طاری تھی، عالم جذب میں فرمانے لگے وہ نورانی رخ ِزیبا جو چاند سے زیادہ حسین اور روشن ہے، جب جبینِ مقدس سے، آپ ﷺ نے اپنے موئے مبارک کو ہٹایا تو سراج منیر کی تجلیاں نمودار ہونی لگیں۔ اس کے بعد جب جامی کا اپنے وطن آنا ہوا تو بے تابی کے عالم میں پکارنے لگے۔
’’ نسیما جانب بطحا گزر کن زِاحوالم محمد را خبر کن ببر ایں جان مشتاقم در آنجا فدائے روضہ خیر البشر کن توئی سلطان عالم یا محمد زروئے لطف سوئے من نظر کن مشرف گرچہ شد جامی زلطفش خدایا ایں کرم بار دگر کن‘‘۔
جامی بیان کرتے ہیں کہ ایک ہفتہ بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ انہیں آپؐ نے پھر زیارت سے مشرف فرمایا۔ ( اغثنی یا رسول اللہ، صفحہ 17،18)۔
حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی وہ عاشق رسولﷺ ہیں جن کو بارگاہ ِرسالت میں شرف قبولیت حاصل ہے۔ دیوبند مکتب ِفکر کے مولانا ذکریا لکھتے ہیں: مولانا جامی نور اللہ مرقدہ، یہ نعت لکھنے کے بعد جب ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ روضہ اقدس کے پاس کھڑے ہو کر اس نظم کو پڑھیں گے۔ جب حج کے بعد مدینہ منورہ کی حاضری کا ارادہ کیا تو امیرِ مکہ نے خواب میں حضورﷺ کی زیارت کی، حضور اقدس ﷺنے خواب میں ان کو ارشاد فرمایا کہ اس کو ( جامی کو) مدینہ نہ آنے دیں۔ امیرِ مکہ نے ممانعت کر دی مگر ان پر جذب و شو ق اس قدر غالب تھا کہ یہ چھپ کر مدینہ منورہ کی طرف چل دئیے۔ امیرِ مکہ نی دوبارہ خواب دیکھا، حضورﷺ نے فرمایا : وہ آ رہا ہے، اس کو یہاں نہ آنے دو۔ امیر مکہ نے آدمی دوڑائے اور ان کو راستہ سے پکڑوا کر بلایا۔ ان پر سختی کی اور جیل خانے میں ڈال دیا۔ اس پر امیر مکہ کو تیسری مرتبہ حضور اقدسﷺ کی زیارت ہوئی، حضور نے ارشاد فرمایا: یہ کوئی مجرم نہیں ہے، اگر ایسا ہوا تو قبر سے مصافحہ کیلئے ہاتھ نکلے گا جس میں فتنہ ہو گا، اس پر ان کو جیل سے نکالا گیا اور بہت اعزاز و اکرام کیا گیا۔ ( تبلیغی نصاب فضائل درود شریف صفحہ 131)۔
حضرت عبدالرحمٰن جامی کی نعت کے چند اشعار
زمہجوری بر آمد جانِ عالم ترحم یا نبی اللہ ترحم
( ترجمہ: آپؐ کے فراق سے کائنات ِعالم کا ذرہ ذرہ جاں بلب ہے اور دم توڑ رہا ہے۔ اے رسولﷺخدا ! نگاہ کرم فرمائیے، اے ختم المرسلینﷺ! رحم فرمائیے)۔
نہ آخر رحم اللعالمینی زمحروماں چرا غافل نشینی
( ترجمہ: آپﷺ یقینا رحمت العالمین ہیں، ہم خرماں نصیبوں اور ناکامانِ قسمت سے آپ کیسے تغافل فرما سکتے ہیں)۔ زخاک اے لالہ سیراب برخیز چو نرگس خواب چند از خواب برخیز
( ترجمہ: اے لالہ خوش رنگ اپنی شادابی و سیرابی سے عالم کو مستفید فرمائیے اور خواب نرگس سے بیدار ہو کر ہم محتاجان ہدایت کے قلوب کو منور فرمائیے)۔
بروں آور سر از بردیمانی کہ روئے تست صبح زندگانی
( ترجمہ: اپنے سر مبارک کو یمنی چادروں کے کفن سے باہر نکالئے کیونکہ آپﷺ کا روئے انور صبح زندگانی ہے )۔ ( تبلیغی نصاب، فضائل درود شریف ( صفحہ 132،134،135)۔
حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی کا نعتیہ کلام اگرچہ عشق رسولﷺ کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن نثر میں بھی انہوں نے اپنے عشق و محبت کا اظہار کیا ہے۔ سیرت رسولﷺ پر آپ کی جامع کتاب شواہد النبو ہے، جس کا ہر لفظ، ہر حرف اور ہر جملہ آپ کے عشق رسولﷺ کا عکاس ہے۔ عشق رسولﷺ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حضورﷺ کی نسبت جس چیز سے ہو اس سے محبت کی جائے ، چنانچہ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا ذکر ِخیر بھی دلنشیں انداز میں کیا گیا ہے۔ اہل بیت ِاطہار علیہم السلام سے بطورِ خاص محبت کا اظہار آپ کی کتاب بارہ امام سے بھی ہوتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں
تنم فرسودہ جاں پارہ ز ہجراں یا رسول اللہ دلم پعمردہ آوارہ ز عصیاں یا رسول اللہ
( ترجمہ: یا رسولؐ اللہ میرا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے، آپؐ کی جدائی میں۔ میرا دل مرجھا کر بھٹک رہا ہے گناہوں کے بوجھ سے)۔
زکردہ خویش حیرانم،سیاہ شد روز عصیانم پشیمانم پشیمانم پشیماں یا رسول اللہ
( ترجمہ: روز قیامت میرا نامہ اعمال گناہوں کی بہتات سے سیاہ ہوگا۔ یا رسولؐ اللہ میں انتہائی پشیمان انتہائی پشیمان اور سخت شرمندہ ہوں)۔
زجام حب تو مستم، بہ زنجیر تو دل بستم نمی گویم کہ من ہستم سخنداں یا رسول اللہ
( ترجمہ: میں آپؐ کی محبت میں مست ہوں اور آپؐ کی عشق کی زنجیروں سے میرا دل بندھا ہوا ہے۔ میں عاجز اور مسکین یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں کوئی بہت بڑا شاعر ہوں)۔
چوں بازوئے شفاعت را کشائی بر گناہگاراںمکن محروم جامی را درا آں یا رسول اللہ
( ترجمہ: اے اللہ کے پیارے نبیؐ جب روزِ قیامت آپؐ اپنی شفاعت کا بازو لمبا کر کے گناہ گاروں کے سروں پر پھیلا دیں گے، تب اس مشکل اور نازک گھڑی میں اس عاجز جامی کو محروم نہ رکھیے گا)۔
شعر کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی آپ کی کتب کی ایک طویل فہرست ہے جس میں آپ نے اپنے علم و فضل کا اظہار فرمایا لیکن آپ کی تمام کتابوں کا لفظ لفظ عشق رسولﷺسے مالامال ہے اور محبت رسول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس چیز سے محبت ہو اس کا ذکر والہانہ انداز میں کیا جائے۔مولانا عبدالرحمٰن جامی نے اپنے محبت رسولﷺنے فرمایا ہے۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی کی وفات بروز جمعہ 18محرم الحرام 898ہجری،14نومبر 1492 ء 80سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کا مزار ہرات شہر میں واقع ہے ۔