ColumnImtiaz Aasi

زائرین گروپ آرگنائزروں کی رجسٹریشن

زائرین گروپ آرگنائزروں کی رجسٹریشن
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پاکستان سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں زیارات کیلئے زائرین گروپس کی شکل میں جاتے ہیں۔ زائرین کو قافلوں کی شکل میں لے جانے کا یہ سلسلہ نجی طور پر جاری تھا کہ وزارت مذہبی امور نے عازمین حج کی طرح زیارات گروپس آرگنائزروں کی رجسٹریشن کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلے میں اخبارات میں اشتہارات شائع کرائے گئے ہیں تاکہ زائرین کو لے جانے والے گروپ آرگنائزروں کی رجسٹریشن مکمل ہو سکے۔ ہمیں یاد ہے ایک سال قبل وزارت مذہبی امور نے زائرین کو لے جانے والے گروپ آرگنائزروں کی رجسٹریشن کے لئے اخبارات میں اشتہارات دیئے تھے۔ اس سلسلے میں بہت سے زائرین گروپس آرگنائزروں کی رجسٹریشن کر لی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو زائرین کو ایک نظام کے تحت بھیجنے کے لئے زائرین گروپس آرگنائزروں کا رجسٹرڈ کیا جانا بہت ضروری تھا۔ ہمیں یاد ہے آج سے کئی سال قبل عازمین حج کو نجی گروپس میں بھیجنے کے لئے حج گروپ آرگنائزوں کی رجسٹریشن کا مرحلہ آیا تو ایسے ایسے لوگوں کو اجازت نامے جاری کر دیئے گئے جنہوں نے کبھی حج تک نہیں کیا تھا۔ حج گروپ آرگنائزروں کی رجسٹریشن کا کام مسلم لیگ نون کے گزشتہ دور میں شروع ہوا تھا۔ عجیب تماشہ ہے سفارشی لوگوں کو ممنون کرنے کے لئے پچاس، پچاس عازمین حج کو بھیجنے کے اجازت ناموں کا اجراء کیا گیا۔ جب کوٹہ کی تقسیم کا وقت آیا تو گروپس آرگنائز ر سپریم کورٹ میں چلے گئے اور عدالتی فیصلہ کی روشنی میں انہیں کوٹہ الاٹ کیا گیا۔ اس وقت نو سو کے قریب حج ٹو آپریٹر رجسٹر ہیں جنہیں حج کوٹہ الاٹ کیا جاتا ہے۔ یہ کلیسٹر بنانے کا نظام تو گزشتہ سال متعارف کرایا گیا ہے۔ تعجب ہے نو سو ٹور آپریٹروں کی موجودگی میں ایک ہزار سے زیادہ ٹور آپریٹر انتظاری فہرست میں رکھے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں اس وقت کے وزیر مذہبی امور نے بعض من پسند بندوں کو حج کوٹہ الاٹ کیا انہوں نے تو حد کردی تھی۔ وزارت مذہبی امور کی پرانی عمارت جو اوقات کی ملکیتی تھی ایک سیف مارٹ کو الاٹ کر دی جس پر بڑا شور غوغا ہوا بالاآخر اسی سیف مارٹ کودے دی گئی جسے وزیر صاحب دینا چاہتے تھے۔ اب دو باتیں سامنے آتی ہیں وزارت مذہبی امور نے زیارات پر لے جانے والے گروپ آرگنائزروں کی رجسٹریشن کے لئے ایک سال قبل درخواستیں وصول کیں یا تو درخواستوں کی تعداد بہت کم ہے اس لئے دوبارہ اشتہار دینے کی ضرورت پڑی ہے یا پھر وزارت مذہبی امور اپنے سفارشیوں کو نوازنے کے لئے دوبارہ اخبار میں اشتہار دیا ہے تاکہ سفارشیوں کو کسی نہ کسی طریقہ سے ایڈجسٹ کیا جا سکے۔ حج گروپس آرگنائزروں کی رجسٹریشن کے وقت نہ کسی کا تجربہ دیکھا گیا بلکہ سفارش کے بل بوتے پر اجازت ناموں کا اجراء ہوتا رہا۔ وزارت مذہبی امور نے2024ء حج عمرہ ایکٹ کا نفاذ کیا تھا لیکن عملی طور پر اس پر عمل نہیںہو سکا تھا۔ سوال ہے زائرین کو عمرہ پر لے جانے والے ٹور آپریٹر پہلے سے ٹورزم کی وزارت کے پاس رجسٹر ہوتے ہیں۔جو ٹور آپر ٹیر عمرہ زائرین کو سعودی عرب بھیجتے ہیں، ان کا سعودی عمرہ کمپنیوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں زائرین کے لئے عمرہ ویزوں کا اجرائ، ٹرانسپورٹ کی سہولت اور رہائش کے معاہدے شامل ہوتے ہیں لہذا یہ نظام پہلے سے چل رہا ہے۔ سوال ہے وزارت مذہبی امور ایسے ٹور آپریٹروں کو قانون کے دائرے میں کیسے لائی گئی جبکہ وہ پہلے سے ٹورزم کی وزارت کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور سعودی کمپنیوں کے ساتھ عمرہ زائرین کو سہولتوں کی فراہمی کے معاہدے کر رکھے ہیں؟ شائد اسی لئے عمرہ ایکٹ 2024ء پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ جہاں تک حج گروپ آرگنائزروں کو اجازت نامہ جاری کرنے کی بات ہے وزارت مذہبی امور نے مبینہ طور پر اپنی وزارت کے بہت سے ملازمین نے اپنی عزیزوں اور رشتہ داروں کے نام لے رکھے ہیں ہیں۔ حقیقت میں وزارت مذہبی امور میں مبینہ طور پر بدانتظامی ہے جس کی وجہ سے حج گروپ آرگنائزروں کو شکایات کا موقع ملتا ہے۔ اب امسال حج کے تجربہ کی روشنی میں عازمین حج کو حج پر بھیجنے کا کام شروع ہو چکاہے شنید ہے وزارت مذہبی امور حج گروپ آرگنائزروں کے کوٹہ میں کمی بارے سوچ بچار کر رہی ہے اگر نجی گروپ کا کوٹہ کم کرنے کی کوشش کی گئی تو پہلے کی طرح پرائیویٹ حج گروپ آرگنائزر عدالتوں میں چلے جائیں گے۔ وزارت مذہبی امور کو ریگولر اسکیم کی طرح نجی گروپ لے جانے والے حج گروپ آرگنائزروں کو عازمین حج کی بکنگ کی بروقت اجازت دینی چاہیے تاکہ حج کے موقع پر پیش آنے والی مشکلات کا سد باب ہو سکے۔ وزارت مذہبی امور نے اب زائرین کو لے جانے والے گروپ آرگنائزروں کی رجسٹریشن کرنی ہے لہذا جس طرح لاتعداد حج گروپ آرگنائزروں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے اس سے گریز کیا جائے اور صرف اہل کمپنیوں کو رجسٹرڈ کیا جائے تاکہ بعد میں زائرین کے کوٹہ کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ حج عمرہ ایکٹ میں حجاج کے فلاح و بہبود فنڈ کو حج آپریشن فنڈ میں منتقل کر دیا جائے گا لیکن ماضی کی طرح حجاج کے فنڈ کو بے دردی سے استعمال سے گریز کیا جائے۔ ایک سیکرٹری مذہبی امور نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی منظوری سے ملتان میں ایک عرس کے انعقاد کے لئے ایک این جی او کو پانچ لاکھ روپے دیئے تھے یا پھر اسی فنڈ سے سٹاف کار کی خریداری کی اصولی طور پر غلط ہے۔ حاجیوں کا فنڈ ایک امانت ہے وزارت مذہبی امور کے حکام کو فنڈ کا استعمال کرتے وقت حق تعالی کا خوف ذہن میں رکھنا چاہیے ایک روز انہیں ایک ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں کسی کی سفارش نہیں چلے گی لہذا غیر قانونی کاموں سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ گو زیارات ایکٹ کا نفاذ ہو چکاہے لیکن زائرین کو لے جانے والے گروپس کی رجسٹریشن ہونا باقی ہے مجھے نہیں لگتا امسال نئے نظام پر عمل درآمد ہو سکے گا۔ ہمیں امید ہے امسال عازمین حج کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے مستقبل قریب میں اس طرح کی بدانتظامی نہیں ہونی چاہیے۔ وزارت مذہبی امور کو وفاقی وزیر مصدق ملک کی رپورٹ کو پبلک کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے تاکہ عوام یہ جان سکیں عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد کو حج سے محروم رکھنے کا ذمہ دار کون ہے۔

جواب دیں

Back to top button