ColumnTajamul Hussain Hashmi

صحافت بیتی ۔۔۔ قوم کی فکری گمشدگی کی کہانی

صحافت بیتی ۔۔۔ قوم کی فکری گمشدگی کی کہانی
تحریر : تجمّل حسین ہاشمی
کتاب ’’ صحافت بیتی‘‘ صرف یادداشتوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں پاکستانی صحافت کی اصل صورت صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ماضی کی تلخیوں، سچائیوں اور جدوجہد کو بیان کرتی ہے بلکہ حال کے صحافی کے لیے رہنمائی کا چراغ بھی ہے ۔ میں ’’ صحافت بیتی‘‘ کو ایک قاری کے طور پر نہیں، بلکہ ایک طالب علم کی طرح پڑھ رہا ہوں ۔ ہر صفحہ، ہر سطر ایک درس ، ایک تجربہ محسوس ہوا ہے ۔ ایسے کئی واقعات جن پر وقت نے گرد ڈال دی تھی، جناب سجاد عباسی نی ان کہانیوں کو اپنے لفظوں سے زندہ کر دیا ہے۔ نہ کوئی لفاظی، نہ بناوٹ، بس ایک ایسا سچ جو قوم کو جگا رہا ہے۔
یہ کتاب صرف اُن کے لیے نہیں جو صحافت سے وابستہ ہیں، بلکہ اُن کے لیے بھی ہے جو سچائی سے محبت رکھتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ ایک صحافی کو سچ سامنے لانے کے لئے کتنے درد، دبائو اور جسمانی تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ’’ صحافت بیتی‘‘ چند نامور صحافیوں کا ذاتی سفر ضرور ہے ، مگر اس میں پوری قوم کی فکری گمشدگی کا پتہ بھی ملتا ہے ۔۔ ایسی کتابیں وقت نہیں لکھتا، تخلیقی، درد دل رکھنے والے لکھتے ہیں۔ کتابیں سچائی میں جنم لیتی ہیں اور انسانی ذہنوں میں زندہ رہتی ہیں۔ میرے نزدیک ’’ صحافت بیتی‘‘ ایک سچ ہے، جو پڑھنے والے کے اندر بیداری پیدا کرتی ہے ۔ تاریخی واقعات اس کتاب کا حسن ہیں، جناب محمود شام، نذیر لغاری، زاہد حسین، عارف الحق عارف، انور سن رائے اور وسعت اللہ خان کی بے باک صحافتی زندگی اس شعبہ میں قابل قدر ہے ۔
میں ذاتی طور پر کئی مرتبہ ان سے مل چکا ہوں، کراچی پریس کلب میں صحافی دوست فہیم جن کا تعلق گلگت سے تھا اور میں موجود تھے وسعت اللہ خان صاحب سے سینئر اور جونیئر صحافی پر ان کا موقف سن چکے ہیں۔
سینئر صحافی مظہر عبّاس کا کھرے انٹرویو، جس میں انہوں نے عمران خان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ کیا آپ نے اپنی پارٹی کا آئین پڑھا ہے ؟ وہ ایک دم پریشان سے ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ میری پارٹی کے بڑے سینئر اور جید قانون دان نے یہ آئین بنایا ہے۔ میں نے کہا وہ تو میں جانتا ہوں، حامد خان اور بڑے نام ہیں۔ خان صاحب بتائیں آپ نے خود پڑھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا نہیں میں نے نہیں پڑھا۔ یہ بات انہوں نے اس وقت بتائی جب تحریک انصاف کے آئین کو بنے ہوئے 10 برس ہو چکے تھے۔ خیر پھر دیگر سوال ہوتے رہے ۔ بعد میں کہنے لگے میں یہ توقع بھی نہیں کر رہا تھا کہ اس قسم کا کوئی سوال بھی پوچھا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ ان سے انٹرویو کرنے گیا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ ( ان دنوں یوم مئی آنے والا تھا ) یوم مئی پر آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے تو خان صاحب کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ میں کیا بات کر رہا ہوں ، پھر معراج محمد خان نے بات سنبھال لی۔ پھر جب 1997ء میں جب عمران خان نے پہلی مرتبہ الیکشن لڑا تو اس کے بعد مجھ سے پوچھا کہ ہمیں سیٹس کیوں نہیں ملتیں ؟، تو میں نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپ کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ آپ کی فین فالوئنگ ہے، لیکن خان کا یہ کریڈٹ ہے کہ اس نے اپنی فین فالوئنگ کو ووٹ میں تبدیل کر لیا۔ ’’ سینئر صحافی سجاد عباسی صاحب ( گروپ ایڈیٹر ڈیلی امّت ) کی کتاب ’’ صحافت بیتی ‘‘ سے لیا گیا اقتباس۔
ویسے ایک بات سچ ہے کہ کوئی ایک بھی ایسی پارٹی نہیں جو اپنے منشور پر عمل کر رہی ہے، مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے رہنمائوں کو پاکستان کے آئین سے بھی کوئی خاص لینا دینا نہیں ہے، صرف ذاتی مفادات اور کاروباری ترجیحات پر ملکی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ مجھے یکم دسمبر 1972ء کو جنگ اخبار میں شائع ہونے والی خبر پر حیرانی ہوئی، جس میں چینی چوروں کا پیچھا کرنے کے اعلانات تھے، لیکن آج 2025ء میں بھی حکومت چینی، آٹا کے چوروں کو پکڑنے کے دعوے کر رہی ہے جبکہ کئی نسلیں اس آس میں گزر چکی ہیں، آئین میں ترمیم ذاتی مفادات کا عکس بن چکی ہے۔ ابھی کچھ کم نہیں 27ترمیم کی آوازیں گردش میں ہیں، کیا ماضی میں کی گئی ترامیم شہریوں کو آئین میں درج حقوق دے پائی ہیں ؟، ہر دور میں سچ بولنے والوں کو دبانے کی ناکام کوششیں کی جاتی رہیں لیکن ریاست کے 25کروڑ عوام کو کامل یقین ہے کہ سچ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا یہ ریاست زندہ باد رہے گی، ان شاء اللہ۔

جواب دیں

Back to top button