بلوچستان: شناخت کے نام پر خونریزی

بلوچستان: شناخت کے نام پر خونریزی
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
بلوچستان، پاکستان کا وہ خطہ جو اپنی وسعت، قدرتی وسائل اور ثقافتی تنوع کے لیے جانا جاتا ہے، آج ایک ایسی دلدوز داستان کا منظرنامہ بن چکا ہے جہاں شناخت کے نام پر خون بہایا جا رہا ہے۔ یہ زمین، جو کبھی امن اور ترقی کی امیدوں سے جگمگاتی تھی، اب انتہا پسندوں کی وحشت اور ملک دشمن عناصر کی سازشوں کی زد میں ہے۔ یہ وہ شاہراہیں ہیں جہاں مسافر اپنی منزل کی بجائے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ یہ وہ دیہات ہیں جہاں معصوم مزدوروں اور تاجروں کا خون ناحق بہایا جا رہا ہے۔ شناخت کی بنیاد پر قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں، لیکن 2025ء میں اس نے ایک نئی شدت اختیار کر لی ہے۔
بلوچستان میں شناخت کی بنیاد پر قتل کا یہ سلسلہ 2020-2021ء سے نمایاں طور پر شروع ہوا، جب مسلح گروہوں نے شاہراہوں پر ناکے لگا کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرنے اور غیر بلوچ افراد کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہ کوئی اتفاقیہ واقعات نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں، جس کے پیچھے ملک دشمن عناصر کی ایما پر کام کرنے والی تنظیمیں ہیں۔ 2024ء میں اس نوعیت کے حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، اور 2025ء میں یہ سلسلہ اور بھی شدت سے جاری ہے۔ جنوبی ایشیا دہشت گردی پورٹل کے مطابق، 2000ء سے اب تک بلوچستان میں دہشت گردی کے 3225واقعات ہو چکے ہیں، جن میں 9491افراد لقمہ اجل بنے۔ صرف 2024ء میں 938حملوں میں 1002افراد ہلاک ہوئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 84فیصد زیادہ ہے۔ 2025ء میں یہ تعداد مزید بڑھ گئی ہے، جہاں جعفر ایکسپریس پر حملے سے لے کر بارکھان اور دکی تک کے واقعات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
2025 ء کے ابتدائی مہینوں میں بلوچستان کی شاہراہوں پر خونریزی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ مارچ 2025ء میں جعفر ایکسپریس پر بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کے حملے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ دیا۔ اس حملے، جسے بی ایل اے نے’’ آپریشن درہ بولان‘‘ کا نام دیا، کی ایک 35منٹ کی ویڈیو جاری کی گئی، جس میں جدید ہتھیاروں سے لیس جنگجوئوں کو کارروائی کی منصوبہ بندی کرتے دکھایا گیا۔ یہ حملے محض سیکیورٹی فورسز تک محدود نہیں رہے۔ 2024 ء سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب عام شہریوں، خصوصاً پنجابی مزدوروں اور تاجروں تک پھیل چکا ہے۔ اپریل 2024 ء میں نوشکی میں ایک بس سے نو پنجابی مزدوروں کو اتار کر قتل کیا گیا۔ اگست2024ء میں موسیٰ خیل میں 22 افراد کو شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد گولیوں سے بھون دیا گیا، جن میں 20کا تعلق پنجاب سے تھا۔ 2025ء میں یہ وحشت اور بڑھ گئی۔ جولائی 2025ء میں بارکھان میں رسول بخش بلوچ کو بی ایل اے نے پاکستانی جاسوس قرار دے کر قتل کر دیا، جبکہ اسی ہفتے جمال بلوچ اور عرضی بلوچ بھی اسی تنظیم کے ہاتھوں مارے گئے۔ جولائی 2025ء میں ہی ایک اور دلخراش واقعہ پیش آیا، جب شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، لودھراں، خانیوال، اٹک اور ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو قتل کیا گیا۔ ان میں دو بھائی بھی شامل تھے جو اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔
یہ واقعات محض جرائم نہیں، بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ ہیں، جس کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ اور دیگر غیر ملکی قوتیں ہیں، جو بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر پاکستان کی معاشی ترقی، خصوصاً پاک۔ چین اقتصادی راہداری ( سی پیک) کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بی ایل اے، بلوچ لبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف) اور بلوچ راج آجوئی سنگر ( براس) جیسی تنظیمیں ان ملک دشمن عناصر کی ایما پر کام کر رہی ہیں۔ یہ گروہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں، جن میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات، اینٹی پرسنل اور اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں، دستی بم، راکٹ لانچرز اور حتیٰ کہ C4 جیسے دھماکہ خیز مواد شامل ہیں۔ یہ اسلحہ ان تک بیرونی طاقتوں کی مدد سے پہنچ رہا ہے، جو پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے انہیں فنڈنگ اور تربیت فراہم کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا اصل ہدف پاکستان کی ترقی کو روکنا اور صوبے میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ یہ وہ گروہ ہیں جو نہ صرف غیر بلوچ شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، بلکہ اب اپنے ہی بلوچ بھائیوں کو ’’ پاکستانی جاسوس‘‘ کے جھوٹے الزامات لگا کر قتل کر رہے ہیں۔ یہ کیسی نام نہاد تحریک ہے جو اپنے ہی لوگوں کا خون بہاتی ہے؟ یہ کیسی جدوجہد ہے جو معصوم مسافروں، مزدوروں اور تاجروں کی جان لیتی ہے؟ یہ کوئی تحریک نہیں، بلکہ ایک ایسی دہشت گردی ہے جو بلوچستان کے امن اور پاکستان کی ترقی کے خلاف ہے۔
ان انتہا پسندوں کی کارروائیوں نے بلوچستان کی شاہراہوں کو موت کے راستوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ لورالائی۔ ڈیرہ غازی خان ہائی وے، ژوب، موسیٰ خیل اور کوئٹہ ۔لاہور ہائی وے اب وہ راستے بن چکے ہیں جہاں مسافر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرتے ہیں۔ یہ وہ شاہراہیں ہیں جو کبھی بلوچستان کو پاکستان کے دیگر حصوں سے جوڑتی تھیں، لیکن آج یہ خونریزی کا میدان بن چکی ہیں۔ ان حملوں نے نہ صرف عام شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا ہے، بلکہ صوبے کی معاشی ترقی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبے، جو بلوچستان کو ترقی کی نئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں، ان انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ یہ گروہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکنے اور صوبے کو ترقی سی محروم رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
جولائی 2025ء میں ہونے والے واقعات، جن میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ گروہ کسی بھی اخلاقی یا انسانی قدر کی پروا نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مفادات اور غیر ملکی آقائوں کے ایما پر بلوچستان کی سرزمین کو خون سے رنگ رہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی اصل لڑائی ان انتہا پسندوں سے ہے، جو غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سی پیک جیسے منصوبوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، جو بلوچستان کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں، اور جو اس سرزمین کو امن سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہیں۔ یہ وقت ہے اس سازش کے خلاف لڑیں، اس دہشت گردی کو ختم کریں، اور بلوچستان کو وہ امن و ترقی دیں جو اس کا حق ہے۔ جہاں کوئی مسافر خوف کے سائے میں سفر نہ کرے، اور جہاں کوئی شناخت موت کا پروانہ نہ بنے۔