بلاول بھٹو۔ ایک مدبر سیاستدان

بلاول بھٹو۔ ایک مدبر سیاستدان
تحریر : اطہر شریف
بلاول بھٹو زرداری کا کرن تھاپر کو دیا گیا انٹرویو ، جوکہ10 جولائی2025ء میں معروف بھارتی صحافی کرن تھاپر کے یو ٹیوب چینل The Wireپر نشر ہوا ، کئی اعتبار سے ایک نرم لہجے میں دی گئی جارحانہ سفارتکاری soft yet strategic diplomacyکی مثال سمجھا جا رہا ہے۔ کرن تھاپر کو دیا گیا بلاول کا انٹرویو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ بلاول بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، اور اتنے مشکل موضوع پر، اتنی دبائو والی جگہ پر، اس اعتماد سے بات کرنا اور کامیاب ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ کرن تھاپر جیسے سخت گیر، تجربہ کار اور جارحانہ انداز رکھنے والے صحافی کو اس سطح پر فرسٹریٹ کر دینا بلاول کے لیے ایک بڑی جیت ہے۔ کرن تھاپر وہی صحافی ہے جس کے انٹرویو کے دوران نریندر مودی مائیک اتار کر بھاگ گیا تھا۔ اور اسی شخص کے سامنے بلاول کا اس سطح پر گفتگو کرنا، پوری تیاری سے آنا، اور اعتماد کے ساتھ اپنا موقف رکھنا ایک بڑی کامیابی ہے۔
اگر آپ کرن تھاپر اور بلاول کا یہ انٹرویو دیکھیں اور اس کے نیچے کمنٹس پڑھیں، تو شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کرن تھاپر کی حمایت کر رہا ہو۔
بلاول نے واضح کیا کہ ’’ پاکستان کی بقا اب صرف جغرافیائی سلامتی میں نہیں، بلکہ معاشی سلامتی میں ہے‘‘۔ یہ بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی کے روایتی ’’ سکیورٹی اسٹیٹ‘‘ نظریے سے آگے نکلنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
انٹرویو پاکستان اور بھارت دونوں میں خاصی میڈیا اور سیاسی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ انٹرویو بلاول کے ابھرتے ہوئے سفارتی انداز، خطے میں امن کے بیانیے، اور بین الاقوامی پوزیشننگ کا ایک واضح اظہار تھا۔
بلاول نے پاک بھارت تعلقات پر نرمی اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا: انہوں نے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370کی منسوخی کو ایک unilateral stepقرار دیا۔ لیکن وہ روایتی تلخ الفاظ سے گریز کرتے نظر آئے۔ کشمیر کو ’’ ڈائیلاگ کے ذریعے حل ہونے والا مسئلہ‘‘ کہا۔ بلاول نے کہا’’ پاکستان اور بھارت کو دشمنی وراثت میں ملی ہے، لیکن یہ وراثت مستقل نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تعلقات میں بہتری مذاکرات سے ممکن ہے، لیکن مسئلہ کشمیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے، یہ بیان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی توثیق کے مترادف ہے۔ بلاول نے ذاتی غصے یا جذباتی ردعمل سے گریز کیا، جو کہ ایک نوجوان رہنما کی پختگی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا میرا بھارت سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں۔۔۔ لیکن پاکستان کے قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔
لرن تھاپر بلاول کے سامنے بار بار الجھتا، بیزار ہوتا اور بے اثر نظر آیا۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ بلاول دنیا کے سامنے دہشت گردی جیسے نازک موضوع پر، جہاں عمومی طور پر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے فوری سزا دے دی جاتی ہے، اتنے پر اعتماد اور موثر انداز میں اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جہاں عام طور پر پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جاتا تھا، اور پوری دنیا کا بیانیہ ہمارے خلاف ہوتا تھا۔ لیکن بلاول نے اس ماحول میں نہ صرف خود کو منوایا بلکہ انٹرویو کا رخ ہی تبدیل کر دیا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ کرن تھاپر کے سامنے بیٹھ کر اس طرح کی گفتگو کرنا، جہاں وہ آپ کو ہر طرح سے پھنسانے کی کوشش کر رہا ہو، یہ واقعی ایک بڑا کارنامہ ہے۔
کرن تھاپر نے کئی سخت اور چبھتے ہوئے سوال کئے، مثلا: پاکستان نے بھارت سے تجارت بند کیوں کی، کیا پاکستان کی فوج خارجہ پالیسی پر حاوی ہے، آپ کی والدہ ( بے نظیر بھٹو) نے 1996ء میں کیا کہا تھا، آپ کیا مختلف کر رہے ہیں۔
بلاول نے ہر سوال کا جواب نسبتاً سنجیدگی سے دیا، اور کئی مواقع پر وہ سفارتی انداز میں سوال کا رخ موڑنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے پاکستانی سیاست پر بھی بات کی۔
کرن تھاپر نے سخت سوال کیے، جیسے: کیا آپ کے ملک میں فوج سب کچھ کنٹرول کرتی ہے؟ کیا آپ بھارت سے خفیہ بات چیت کر رہے ہیں؟ کیا آپ مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال کر معاشی تعلقات چاہتے ہیں۔ بلاول نے بغیر الجھے، نہ دفاعی ہوئے، بلکہ دور اندیش اور سفارتی انداز میں جواب دیا۔’’ فوج ریاست کا ایک ادارہ ہے، پالیسی کا تعین سول قیادت کرتی ہے‘‘۔ یہ جواب داخلی سیاسی حقیقت سے تھوڑا الگ نظر آیا، مگر بین الاقوامی سفارت کاری کے تناظر میں سمجھداری سے دیا گیا۔
عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا:’’ وہ سیاست کو میدان جنگ بنا چکے ہیں۔ ہمیں سیاست کو دشمنی کا میدان نہیں، مکالمے کا ذریعہ بنانا ہے۔ بلاول نے Economic Securityپر بات کی، یعنی خارجہ پالیسی کا مرکز معیشت ہونی چاہیے، نہ کہ صرف سکیورٹی۔ یہ وژن جدید سفارتکاری کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے اور مغربی حلقوں میں بہتر تاثر دیتا ہے۔ بلاول کا اس انٹرویو میں لہجہ متوازن، پروفیشنل اور سفارتی مواد سوچا سمجھا، داخلی و خارجی ایشوز پر وضاحتپالیسی وژن۔ مستقبل کے لیڈر کے طور پر خود کو پیش کیا۔
کرن تھاپر کے دبائو میں ردعمل: پختگی دکھائی، جذباتی نہیں ہوئے، خارجہ پالیسی پر گرفت بہتر، خاص طور پر چین، امریکہ اور بھارت کے حوالے سے بلاول نے ایک نرم سفارتکار کا روپ اپنایا۔ الفاظ کا چنائو نہایت محتاط اور نپی تلی بات چیت۔ بھارت کے لیے دروازہ کھلا رکھا، مگر عزت کی ساتھ بات کی شرط رکھی۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ انٹرویو ایک نوجوان سیاستدان کی طرف سے ذہانت، سنجیدگی اور سفارتی مہارت کا مظاہرہ تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی خطے کے ایک اہم مستقبل کے لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ یہ انٹرویو بھارت اور مغرب میں ان کے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ انٹرویو سفارتی حکمت، سیاسی بلوغت اور خطے میں امن کی کوششوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی قیادت کا ایک مہذب، پڑھا لکھا، اور اعتدال پسند چہرہ دنیا کے سامنے رکھا، جو شاید پیپلز پارٹی کے نئے بیانیے کی بنیاد بنے گی.
اطہر شریف